نظر لکھنوی غزل: دل ہے کہ اس نے سیکڑوں فتنے اٹھائے ہیں٭ نظرؔ لکھنوی

دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کی خدمت میں:

دل ہے کہ اس نے سیکڑوں فتنے اٹھائے ہیں
ہم ہیں کہ اس کو سینے سے پھر بھی لگائے ہیں

ہنس کر بروئے بزم غمِ دل چھپائے ہیں
چہرے پہ ہم خوشی کا ملمع چڑھائے ہیں

ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات
جب راہِ حق میں میرے قدم ڈگمگائے ہیں

غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک اٹھی
بزمِ تصورات میں جب آپ آئے ہیں

وہ آئے یا نہ آئے مقدر کی بات ہے
ہم منتظر ہیں راہ میں آنکھیں بچھائے ہیں

شاخیں ہیں سربریدہ ہیں غنچے پریدہ رنگ
اہلِ چمن نے دیکھئے کیا گل کھلائے ہیں

ان کی حریمِ ناز کی اللہ رے کشش
سارے جہاں سے کھنچ کے یہاں لوگ آئے ہیں

وہ زندگی کہاں کہ جسے زندگی کہیں
بس تہمتِ حیات نظرؔ ہم اٹھائے ہیں



محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

یوسف سلطان

محفلین
ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات
جب راہِ حق میں میرے قدم ڈگمگائے ہیں

غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک اٹھی
بزمِ تصورات میں جب آپ آئے ہیں

وہ آئے یا نہ آئے مقدر کی بات ہے
ہم منتظر ہیں راہ میں آنکھیں بچھائے ہیں
وہ زندگی کہاں کہ جسے زندگی کہیں
بس تہمتِ حیات نظرؔ ہم اٹھائے ہیں
بہت عمدہ ۔ بہت عمدہ
 
بس تہمت حیات ۔۔۔ واہ۔ واہ۔ کیا کہنے۔۔۔
شکریہ الشفاء بھائی
بہت عمدہ ۔ بہت عمدہ
شکریہ یوسف بھائی
بہت عمدہ کلام ہے!! ڈھیروں داد!!
شکریہ لاریب بہن
واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے بھیا
بہترین!
شکریہ عباد بھائی
 
دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کی خدمت میں:

دل ہے کہ اس نے سیکڑوں فتنے اٹھائے ہیں
ہم ہیں کہ اس کو سینے سے پھر بھی لگائے ہیں

ہنس کر بروئے بزم غمِ دل چھپائے ہیں
چہرے پہ ہم خوشی کا ملمع چڑھائے ہیں

ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات
جب راہِ حق میں میرے قدم ڈگمگائے ہیں

غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک اٹھی
بزمِ تصورات میں جب آپ آئے ہیں

وہ آئے یا نہ آئے مقدر کی بات ہے
ہم منتظر ہیں راہ میں آنکھیں بچھائے ہیں

شاخیں ہیں سربریدہ ہیں غنچے پریدہ رنگ
اہلِ چمن نے دیکھئے کیا گل کھلائے ہیں

ان کی حریمِ ناز کی اللہ رے کشش
سارے جہاں سے کھنچ کے یہاں لوگ آئے ہیں

وہ زندگی کہاں کہ جسے زندگی کہیں
بس تہمتِ حیات نظرؔ ہم اٹھائے ہیں



محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
بہت خوب, بہت عمدہ.۔۔ لاجواب,
 
Top