محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کی خدمت میں:
دل ہے کہ اس نے سیکڑوں فتنے اٹھائے ہیں
ہم ہیں کہ اس کو سینے سے پھر بھی لگائے ہیں
ہنس کر بروئے بزم غمِ دل چھپائے ہیں
چہرے پہ ہم خوشی کا ملمع چڑھائے ہیں
ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات
جب راہِ حق میں میرے قدم ڈگمگائے ہیں
غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک اٹھی
بزمِ تصورات میں جب آپ آئے ہیں
وہ آئے یا نہ آئے مقدر کی بات ہے
ہم منتظر ہیں راہ میں آنکھیں بچھائے ہیں
شاخیں ہیں سربریدہ ہیں غنچے پریدہ رنگ
اہلِ چمن نے دیکھئے کیا گل کھلائے ہیں
ان کی حریمِ ناز کی اللہ رے کشش
سارے جہاں سے کھنچ کے یہاں لوگ آئے ہیں
وہ زندگی کہاں کہ جسے زندگی کہیں
بس تہمتِ حیات نظرؔ ہم اٹھائے ہیں
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ہم ہیں کہ اس کو سینے سے پھر بھی لگائے ہیں
ہنس کر بروئے بزم غمِ دل چھپائے ہیں
چہرے پہ ہم خوشی کا ملمع چڑھائے ہیں
ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات
جب راہِ حق میں میرے قدم ڈگمگائے ہیں
غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک اٹھی
بزمِ تصورات میں جب آپ آئے ہیں
وہ آئے یا نہ آئے مقدر کی بات ہے
ہم منتظر ہیں راہ میں آنکھیں بچھائے ہیں
شاخیں ہیں سربریدہ ہیں غنچے پریدہ رنگ
اہلِ چمن نے دیکھئے کیا گل کھلائے ہیں
ان کی حریمِ ناز کی اللہ رے کشش
سارے جہاں سے کھنچ کے یہاں لوگ آئے ہیں
وہ زندگی کہاں کہ جسے زندگی کہیں
بس تہمتِ حیات نظرؔ ہم اٹھائے ہیں
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی