عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے
پیڑ گھنا ہو کتنا بھی ، بے سایہ بھی ہو سکتا ہے
اور سہارا دینے والا تنکا بھی ہو سکتا ہے
دِل بہلے ماحول کی رونق سے ، ایسا لازم تو نہیں
بھیڑ میں رہنے والا بالکل تنہا بھی ہو سکتا ہے
منزل ملتی ہے رستے پر چلتے رہنے والوں کو
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے
رائے کسی كے بارے میں بِن پرکھے ہی قائم نہ کرو
پہلے پتھر لگتا ہے جو ، ہیرا بھی ہو سکتا ہے
دنیا دام لگائےگی لیکن تم لالچ مت کرنا
بکنے والا بکتے بکتے سستا بھی ہو سکتا ہے
حد سے بڑھ کر جبر کسی پر کرنا اچھی بات نہیں
برف کا ٹکڑا مجبوری میں شعلہ بھی ہو سکتا ہے
غم کیا ہے گر ساتھی تجھ کو راہ میں تنہا چھوڑ گئے
ساتھ نبھانے والا تیرا رستہ بھی ہو سکتا ہے
میں ہی ناداں تھا جو سوچا ، اِس بیگانی دنیا میں
جس پر مر مٹ جاؤ وہ پِھر اپنا بھی ہو سکتا ہے
عابدؔ اس نے جاتے جاتے مڑ کر بھی دیکھا نہ مجھے
آج بھی خود سے پوچھتا ہوں ، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ایک غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے
پیڑ گھنا ہو کتنا بھی ، بے سایہ بھی ہو سکتا ہے
اور سہارا دینے والا تنکا بھی ہو سکتا ہے
دِل بہلے ماحول کی رونق سے ، ایسا لازم تو نہیں
بھیڑ میں رہنے والا بالکل تنہا بھی ہو سکتا ہے
منزل ملتی ہے رستے پر چلتے رہنے والوں کو
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے
رائے کسی كے بارے میں بِن پرکھے ہی قائم نہ کرو
پہلے پتھر لگتا ہے جو ، ہیرا بھی ہو سکتا ہے
دنیا دام لگائےگی لیکن تم لالچ مت کرنا
بکنے والا بکتے بکتے سستا بھی ہو سکتا ہے
حد سے بڑھ کر جبر کسی پر کرنا اچھی بات نہیں
برف کا ٹکڑا مجبوری میں شعلہ بھی ہو سکتا ہے
غم کیا ہے گر ساتھی تجھ کو راہ میں تنہا چھوڑ گئے
ساتھ نبھانے والا تیرا رستہ بھی ہو سکتا ہے
میں ہی ناداں تھا جو سوچا ، اِس بیگانی دنیا میں
جس پر مر مٹ جاؤ وہ پِھر اپنا بھی ہو سکتا ہے
عابدؔ اس نے جاتے جاتے مڑ کر بھی دیکھا نہ مجھے
آج بھی خود سے پوچھتا ہوں ، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
آخری تدوین: