غزل: دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے

دِل بہلے ماحول کی رونق سے ، ایسا لازم تو نہیں
بھیڑ میں رہنے والا بالکل تنہا بھی ہو سکتا ہے
ساری غزل کے مضامین ہمیشہ کی طرح لاجواب۔
سر نہایت ادب کے ساتھ اس مصرعہ پر میرا بھی ایک سوال ہے طالب علم کے طورپر اگر راہنمائی کردیں تو مہربانی ہوگی۔
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
سپنے دن کے ہوں یا رات کے، سوتے ہوئے ہوں یا جاگتے ہوئے، ان کا تعلق دماغی خیالات سے ہوتا ہے۔ آنکھوں سے ہرگز نہیں۔ تو اس لحاظ سے اندھے کا سپنے دیکھنا بجا ہے۔ پھر اس کا پہلے مصرعے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ویسے کہتے ہیں کہ کامیاب لوگ رات کے سپنوں کی بجائے دن کے سپنوں کو اہمیت دیتے ہیں یعنی جاگتے ہوئے سپنے دیکھنا اور پھر ان کو سچ کرنے کے لیے تگ و دو کرنا معیوب نہیں بلکہ احسن مانا جاتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ساری غزل کے مضامین ہمیشہ کی طرح لاجواب۔
سر نہایت ادب کے ساتھ اس مصرعہ پر میرا بھی ایک سوال ہے طالب علم کے طورپر اگر راہنمائی کردیں تو مہربانی ہوگی۔
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
سپنے دن کے ہوں یا رات کے، سوتے ہوئے ہوں یا جاگتے ہوئے، ان کا تعلق دماغی خیالات سے ہوتا ہے۔ آنکھوں سے ہرگز نہیں۔ تو اس لحاظ سے اندھے کا سپنے دیکھنا بجا ہے۔ پھر اس کا پہلے مصرعے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ویسے کہتے ہیں کہ کامیاب لوگ رات کے سپنوں کی بجائے دن کے سپنوں کو اہمیت دیتے ہیں یعنی جاگتے ہوئے سپنے دیکھنا اور پھر ان کو سچ کرنے کے لیے تگ و دو کرنا معیوب نہیں بلکہ احسن مانا جاتا ہے۔
دن میں خواب /سپنے دیکھنا اصل میں ایسی باتوں کے وقوع پزیر ہونے کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے کہ جو ممکن نہیں ہو سکتیں۔ اور سپنے بے شک دماغ سوچتا ہے، خیالی پلاؤ بھی دماغ پکاتا ہے۔۔۔ لیکن یہ سائنسی حقیقت ہے جبکہ روزمرہ میں سپنے آنکھوں میں سجائے جاتے ہیں۔ تو دن کے سپنے تو خاص طور پہ آنکھوں میں سجائے جاتے ہیں کہ جو ممکن نہیں ہو سکتے۔ جب یہ ممکن نہیں ہوں گے تو ہو سکتا ہے کہ آنکھیں قوت بصارت سے محروم ہو جائیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اس کے علاؤہ آنکھوں سے ہی خواب نوچے جاتے ہیں، دماغ سے نہیں۔ خواب دیکھنے کے لیے آنکھوں کا لفظ ہی ہم نے استعمال ہوتے دیکھا ہے، دماغ نہیں۔
ع: آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد
ع: خواب آنکھوں سے گئے، نیند راتوں سے گئی
ع: کبھی آنکھوں سے کوئی خواب بچھڑ جاتا ہے
 
دن میں خواب /سپنے دیکھنا اصل میں ایسی باتوں کے وقوع پزیر ہونے کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے کہ جو ممکن نہیں ہو سکتیں۔ اور سپنے بے شک دماغ سوچتا ہے، خیالی پلاؤ بھی دماغ پکاتا ہے۔۔۔ لیکن یہ سائنسی حقیقت ہے جبکہ روزمرہ میں سپنے آنکھوں میں سجائے جاتے ہیں۔ تو دن کے سپنے تو خاص طور پہ آنکھوں میں سجائے جاتے ہیں کہ جو ممکن نہیں ہو سکتے۔ جب یہ ممکن نہیں ہوں گے تو ہو سکتا ہے کہ آنکھیں قوت بصارت سے محروم ہو جائیں۔

اس کے علاؤہ آنکھوں سے ہی خواب نوچے جاتے ہیں، دماغ سے نہیں۔ خواب دیکھنے کے لیے آنکھوں کا لفظ ہی ہم نے استعمال ہوتے دیکھا ہے، دماغ نہیں۔
ع: آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد
ع: خواب آنکھوں سے گئے، نیند راتوں سے گئی
ع: کبھی آنکھوں سے کوئی خواب بچھڑ جاتا ہے
میڈم آپ کی تمام باتیں درست ہیں۔ میرا مدعا صرف یہ تھا کہ کیا اندھے کا خواب دیکھنا خلافِ واقعہ بات ہے؟
 
آخری تدوین:
علوی بھائی پہلے تو داد قبول کیجیے کہ پیاری غزل ہے ۔


دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے

پہلے مصرع کو دیکھتے ہیں:
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
"دل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے " :بھی: کا استعمال بتا رہا ہے کہ سچا بھی ہو سکتا ہے لہذا "دل کی باتیں مت مانو" کی بجائے "سب باتیں دل کی مت مانو" کہنا چاہیے ۔یا بحر کی رعایت سے "دل کی نہ مانو سب باتیں دل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے"-کیا خیال ہے؟

اب اگلے مصرع کو دیکھتے ہیں اور پچھلے مصرع سے اس کا ربط ڈھونڈتے ہیں:
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے

اگر پچھلے مصرع سے علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو اس مصرع کے دو مطلب نکلتے ہیں
»»ممکن ہے وہ اندھا ہو جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہو
»»دن میں سپنے دیکھنے والا عین ممکن ہے عنقریب اندھا ہو جائے کیونکہ وہ مستقل دن میں آنکھوں سے وہ کام لے رہا ہے جو ان کا کام نہیں ۔سو اس کی آنکھوں کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔
پچھلے مصرع میں دو مذکور ہیں ان کے ساتھ اگر دوسرے مصرع کو دیکھا جائے تو یہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں:
1-دل جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہے ممکن ہے اندھا ہو۔
2-صاحب دل جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہے ممکن ہے اندھا ہو۔
3-دل عنقریب اندھا ہو جائے گا یوں ہی اگر دن میں سپنے دیکھے گا
4-صاحب دل عنقریب اندھا ہو جائے گا اگر یوں ہی دن بھر خواب سجائے گا۔
اب دونوں مصرعوں کے ربط سے دیکھتے ہیں کہ ان چار مطالب میں سے کون سا رہتا ہے۔

قاری کا شعر پڑھتے ہی پہلے مطلب کی طرف دھیان جاتا ہے کہ جو میری رائے میں ٹھیک نہیں۔کیونکہ اندھے کی انجانے میں کی گئی خلاف واقعہ بات جھوٹ نہیں ہو سکتی ۔ہاں جان بوجھ کر خلاف واقعہ بات کرنا جھوٹ ہے۔
دوسرے اور تیسرے مطلب سے بھی مصرعے مربوط نہیں ہو پاتے البتہ چوتھا مطلب ایسا ہے کہ جو دونوں مصرعوں میں ربط فراہم کرتا ہے ۔تاہم یہ مطلب فوری ذہن میں نہیں آتا ۔

میری رائے میں شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ دل کی ہر بات ماننے والی نہیں ہوتی کیونکہ دل جھوٹ بھی بولتا ہے ،دل کی ہر بات ماننے کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ دن میں بھی خواب ہی خواب دکھائی دیں گے اور آنکھیں کام کی نہ رہیں گی۔


اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے

واہ بہت خوب ۔



اچھے اقوال زریں ہیں ماشاء اللہ۔

واہ۔اچھا ہے۔

علوی بھائی یہ خلاف واقعہ بات ہے ۔دبی ہوئی چنگاری کا شعلہ بن کر آگ پکڑنا تو خلاف واقعہ نہیں البتہ برف کو شعلہ بنتے نہیں دیکھا ۔کبھی آپ نے دیکھا ہو تو ضرور بتائیے گا۔

یہاں بھی دوسرا مصرع کھٹک رہا ہے ۔
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن بچہ تو ہو سکتا ہے دریا کیسے ہو سکتا ہے؟
قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے محاورہ سنا ہے اور غالب کا یہ مصرع بھی پڑھا ہے ۔
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
لیکن آپ کا مصرع کچھ عجیب لگ رہا ہے۔

امید ہے اپنے فیض سے محروم نہیں فرمائیں گے۔
یاسر بھائی ، آپ کی داد باعث صد مسرت ہے . شکریہ اور جزاک اللہ .

مطلع کا خیال بہت پیچیدہ تو نہیں ، لیکن ممکن ہے صفائی سے ادا نہ ہو سکا ہو . میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ دِل ، جو تصورات میں کھویا رہتا ہے ، اکثر اندھے کی طرح اصلیت دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے . اور عین ممکن ہے کہ اسی وجہ سے وہ انجانےمیں آپ کو غلط تجویز دے دے . لہذا ضروری ہے کہ دِل کی تجاویز ( غور و فکر كے بغیر ) نہ مانی جائیں . اب جہاں تک ’سب باتوں‘ اور ’چند باتوں‘ کا سوال ہے ، تو یاسر بھائی ، نصیحت ناپ تول کر کون کرتا ہے ! :) اور شاعری میں تو یوں بھی مبالغہ عام ہے .

’برف کا ٹکڑا‘ اور ’شعلہ‘ سے یہاں لفظی معنی مراد نہیں . یہ علامتیں ہیں ، مندرجہ ذیل شعر کی طرح :
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہَم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا ( اَحْمَد مشتاق )

قطرہ اگر دوسرے قطرے سے ملے تو مقدار میں بڑھ جاتا ہے . یہاں یہی کہنا مقصود ہے .
 
آخری تدوین:
ساری غزل کے مضامین ہمیشہ کی طرح لاجواب۔
سر نہایت ادب کے ساتھ اس مصرعہ پر میرا بھی ایک سوال ہے طالب علم کے طورپر اگر راہنمائی کردیں تو مہربانی ہوگی۔
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
سپنے دن کے ہوں یا رات کے، سوتے ہوئے ہوں یا جاگتے ہوئے، ان کا تعلق دماغی خیالات سے ہوتا ہے۔ آنکھوں سے ہرگز نہیں۔ تو اس لحاظ سے اندھے کا سپنے دیکھنا بجا ہے۔ پھر اس کا پہلے مصرعے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ویسے کہتے ہیں کہ کامیاب لوگ رات کے سپنوں کی بجائے دن کے سپنوں کو اہمیت دیتے ہیں یعنی جاگتے ہوئے سپنے دیکھنا اور پھر ان کو سچ کرنے کے لیے تگ و دو کرنا معیوب نہیں بلکہ احسن مانا جاتا ہے۔
خورشید صاحب ، داد كے لیے بے حد ممنون ہوں . بہت شکریہ ! آپ كے سوال کا جواب یاسر بھائی کو میرے ناچیز مراسلےمیں موجود ہے . مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو حکم کیجیے .
 

ارشد رشید

محفلین
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے

اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے

پیڑ گھنا ہو کتنا بھی ، بے سایہ بھی ہو سکتا ہے
اور سہارا دینے والا تنکا بھی ہو سکتا ہے

دِل بہلے ماحول کی رونق سے ، ایسا لازم تو نہیں
بھیڑ میں رہنے والا بالکل تنہا بھی ہو سکتا ہے

منزل ملتی ہے رستے پر چلتے رہنے والوں کو
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے

رائے کسی كے بارے میں بِن پرکھے ہی قائم نہ کرو
پہلے پتھر لگتا ہے جو ، ہیرا بھی ہو سکتا ہے

دنیا دام لگائےگی لیکن تم لالچ مت کرنا
بکنے والا بکتے بکتے سستا بھی ہو سکتا ہے

حد سے بڑھ کر جبر کسی پر کرنا اچھی بات نہیں
برف کا ٹکڑا مجبوری میں شعلہ بھی ہو سکتا ہے

غم کیا ہے گر ساتھی تجھ کو راہ میں تنہا چھوڑ گئے
ساتھ نبھانے والا تیرا رستہ بھی ہو سکتا ہے

میں ہی ناداں تھا جو سوچا ، اِس بیگانی دنیا میں
جس پر مر مٹ جاؤ وہ پِھر اپنا بھی ہو سکتا ہے

عابدؔ اس نے جاتے جاتے مڑ کر بھی دیکھا نہ مجھے
آج بھی خود سے پوچھتا ہوں ، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے
بہت خوب عابد صاحب
 
خورشید صاحب ، داد كے لیے بے حد ممنون ہوں . بہت شکریہ ! آپ كے سوال کا جواب یاسر بھائی کو میرے ناچیز مراسلےمیں موجود ہے . مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو حکم کیجیے .
محترم علوی صاحب آداب!
آپ کی حوصلہ افزائی مجھے مزید لکھنے پر اکسا رہی ہے۔ (صرف میری اپنی اصلاح کے لیے)
جیسے کوئی کہتا ہے کہ فلاں نے میری خوبصورتی کی تعریف کی ہے۔ اورسننے والا کہتا ہے کہ وہ اندھا ہی ہوگا جس نےتمہاری خوبصورتی کی تعریف کی ہے۔ یعنی اندھا اگر کسی کو خوبصورت کہے تو ضروری نہیں کہ ممدوح خوبصورت ہے ۔ تو اس لحاظ سے آنکھوں سے دیکھنے والی چیزوں کے ساتھ گر اندھےکا ذکر ہوتا ہےتو پہلے مصرعے سے تعلق سمجھ میں آتا ہے۔ جیسا کہ:
رنگ دھنک کے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
قوسِ قزح کو دیکھنے والا اندھا بھی ہوسکتا ہے
پورے چاند کو دیکھنے والا اندھا بھی ہوسکتا ہے
لیکن اندھے کا سپنے دیکھنا چونکہ خلافِ واقعہ نہیں اس لیے پہلے مصرعے سے تعلق سمجھ نہیں آرہا ۔ مہربانی فرما کر راہنمائی فرائیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم علوی صاحب آداب!
آپ کی حوصلہ افزائی مجھے مزید لکھنے پر اکسا رہی ہے۔ (صرف میری اپنی اصلاح کے لیے)
جیسے کوئی کہتا ہے کہ فلاں نے میری خوبصورتی کی تعریف کی ہے۔ اورسننے والا کہتا ہے کہ وہ اندھا ہی ہوگا جس نےتمہاری خوبصورتی کی تعریف کی ہے۔ یعنی اندھا اگر کسی کو خوبصورت کہے تو ضروری نہیں کہ ممدوح خوبصورت ہے ۔ تو اس لحاظ سے آنکھوں سے دیکھنے والی چیزوں کے ساتھ گر اندھےکا ذکر ہوتا ہےتو پہلے مصرعے سے تعلق سمجھ میں آتا ہے۔ جیسا کہ:
رنگ دھنک کے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
قوسِ قزح کو دیکھنے والا اندھا بھی ہوسکتا ہے
پورے چاند کو دیکھنے والا اندھا بھی ہوسکتا ہے
لیکن اندھے کا سپنے دیکھنا چونکہ خلافِ واقعہ نہیں اس لیے پہلے مصرعے سے تعلق سمجھ نہیں آرہا ۔ مہربانی فرما کر راہنمائی فرائیں۔
خورشید بھائی، مذکورہ مصرع بیک وقت دو مفہوم دے رہا ہے ایک یہ کہ "دن کو سپنے دیکھنے والا ہو سکتا ہے کہ اندھا ہو" اور دوسرا " دن کو سپنے دیکھنے والا ہو سکتا ہے کہ اندھا ہو جائے" آپ دوسرے مفہوم کو لیجیے ممکن ہے آپ کا معمہ حل ہو جائے۔
 
خورشید بھائی، مذکورہ مصرع بیک وقت دو مفہوم دے رہا ہے ایک یہ کہ "دن کو سپنے دیکھنے والا ہو سکتا ہے کہ اندھا ہو" اور دوسرا " دن کو سپنے دیکھنے والا ہو سکتا ہے کہ اندھا ہو جائے" آپ دوسرے مفہوم کو لیجیے ممکن ہے آپ کا معمہ حل ہو جائے۔
عبدالرووف بھائی السلام و علیکم کیسے ہیں آپ!
اگر آپ والا مفہوم لیا جائے تو پھر پہلے مصرعے کا مفہوم یہ لینا پڑے گا کہ دل کی باتیں مت مانو ہو سکتا ہے کہ دل جھوٹا ہو جائے (مستقبل میں) جس کا کوئی معنی نہیں بنتا۔
جبکہ سر علوی صاحب نے پہلے والا مفہوم ہی لیا ہے جس کا تذکرہ انہوں نے اوپر کیا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عبدالرووف بھائی السلام و علیکم کیسے ہیں آپ!
اگر آپ والا مفہوم لیا جائے تو پھر پہلے مصرعے کا مفہوم یہ لینا پڑے گا کہ دل کی باتیں مت مانو ہو سکتا ہے کہ دل جھوٹا ہو جائے (مستقبل میں) جس کا کوئی معنی نہیں بنتا۔
جبکہ سر علوی صاحب نے پہلے والا مفہوم ہی لیا ہے جس کا تذکرہ انہوں نے اوپر کیا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ، بالکل اچھا ہوں الحمد للہ، آپ سنائیں۔
یہ اب علوی بھائی پر لازم ہے کہ اس شعر کی کھل کر شرح کریں (جس خیال کو انہوں نے نظم کیا ہے)۔
 
محترم علوی صاحب آداب!
آپ کی حوصلہ افزائی مجھے مزید لکھنے پر اکسا رہی ہے۔ (صرف میری اپنی اصلاح کے لیے)
جیسے کوئی کہتا ہے کہ فلاں نے میری خوبصورتی کی تعریف کی ہے۔ اورسننے والا کہتا ہے کہ وہ اندھا ہی ہوگا جس نےتمہاری خوبصورتی کی تعریف کی ہے۔ یعنی اندھا اگر کسی کو خوبصورت کہے تو ضروری نہیں کہ ممدوح خوبصورت ہے ۔ تو اس لحاظ سے آنکھوں سے دیکھنے والی چیزوں کے ساتھ گر اندھےکا ذکر ہوتا ہےتو پہلے مصرعے سے تعلق سمجھ میں آتا ہے۔ جیسا کہ:
رنگ دھنک کے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
قوسِ قزح کو دیکھنے والا اندھا بھی ہوسکتا ہے
پورے چاند کو دیکھنے والا اندھا بھی ہوسکتا ہے
لیکن اندھے کا سپنے دیکھنا چونکہ خلافِ واقعہ نہیں اس لیے پہلے مصرعے سے تعلق سمجھ نہیں آرہا ۔ مہربانی فرما کر راہنمائی فرائیں۔
خورشید صاحب ، آپ بلا تکلف سوال کریں . میں حسب لیاقت آپ کی تشفی کی کوشش کروں گا . آپ کو علم ہو گا کہ تصور کی دُنیا سے کم و بیش سب کا گزر ہوتا ہے . اگر یہ گزر ایک حد كے اندر رہے تو اصلیت سے تعلق قائم رہتا ہے . لیکن اگر کوئی تصور کی دُنیا کا ہی ہو کر رہ جائے تو اصلیت کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی اس کی صلاحیت جاتی رہتی ہے ، یعنی وہ ’اندھا‘ ہو جاتا ہے . ظاہر ہے کہ ایسے شخص یا دِل کی بات ماننا خطرے سے خالی نہیں . کچھ بات بنی ؟ :)
 
خورشید صاحب ، آپ بلا تکلف سوال کریں . میں حسب لیاقت آپ کی تشفی کی کوشش کروں گا . آپ کو علم ہو گا کہ تصور کی دُنیا سے کم و بیش سب کا گزر ہوتا ہے . اگر یہ گزر ایک حد كے اندر رہے تو اصلیت سے تعلق قائم رہتا ہے . لیکن اگر کوئی تصور کی دُنیا کا ہی ہو کر رہ جائے تو اصلیت کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی اس کی صلاحیت جاتی رہتی ہے ، یعنی وہ ’اندھا‘ ہو جاتا ہے . ظاہر ہے کہ ایسے شخص یا دِل کی بات ماننا خطرے سے خالی نہیں . کچھ بات بنی ؟ :)
سرکم علمی کی بنیاد پر کیے گئے میرے سوالات پر آپ نے کمال مہربانی سے میری الجھن دور کی۔یہ آپ کے بڑے ہونے کی دلیل ہے۔
میرے جیسے کم فہم نے اندھےکا سطحی یا ظاہری مطلب لے لیا۔جبکہ یہاں بات ظاہری اندھےپن کی نہیں بلکہ باطنی اندھے پن کی ہورہی ہے۔ اسی لیے شاید آپ نے دن کےسپنوں کا ذکر کیا ہے۔
آپ کا ایک دفعہ پھر شکریہ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
علوی بھائی السلام علیکم

اب جہاں تک ’سب باتوں‘ اور ’چند باتوں‘ کا سوال ہے ، تو یاسر بھائی ، نصیحت ناپ تول کر کون کرتا ہے ! :) اور شاعری میں تو یوں بھی مبالغہ عام ہے .

ردیف ہی آپ نے وہ منتخب کی ہے جسے نبھانا احتیاط کا متقاضی ہے۔
آپ خود دیکھیے:
1-اسلم جھوٹا بھی ہو سکتا ہے لہذا اس کی باتیں مت مانو-
2-اسلم جھوٹا ہے لہذا اس کی باتیں مت مانو۔


دوسرا جملہ نہیں کھٹک رہا وجہ نہ کھٹکنے کی یہی ہے کہ اس میں :جھوٹا بھی ہو سکتا ہے: کی محتاط عبارت نہیں۔
’برف کا ٹکڑا‘ اور ’شعلہ‘ سے یہاں لفظی معنی مراد نہیں . یہ علامتیں ہیں ، مندرجہ ذیل شعر کی طرح :
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہَم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا ( اَحْمَد مشتاق )

یہاں میں چاہوں گا کہ آپ کچھ روشنی ڈالیں کہ علامت سے آپ کی کیا مراد ہے اور اگر اسے کوئی استعارہ سمجھ رہا ہو تو کیا ٹھیک سمجھ رہا ہے ؟مطلب یہ کہ برف اور شعلہ کو علامت سمجھا جائے تو کیوں اور استعارہ نہ سمجھا جائے تو کیوں نہیں ؟

بالفرض آپ کے مصرع میں برف اور شعلہ دونوں علامات ہیں پھر بھی کیا ان کے مابین ربط کا نہ ہونا جائز ہے؟ یعنی کیا اس بیانیے میں ربط توجیہہ نہیں ہونا چاہیے؟

برف کا ٹکڑا مجبوری میں شعلہ بھی ہو سکتا ہے

مجھے تو لگتا ہے کہ مبالغوں میں بھی کوئی ربط توجیہہ ہونا چاہیے ۔

مندرجہ ذیل شعر کی طرح :
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہَم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا ( اَحْمَد مشتاق )

یہ شعر تو احمد مشتاق کا ہلکا شعر ہے۔مجھے تو اس میں کوئی علامت نظر نہیں آتی الا یہ کہ یہ کوئی مسلسل غزل کا مطلع ہو اور آگے جا کے شبنم ریت وغیرہ پہ مزید روشنی ڈالی گئی ہو۔ فی الحال تو یہ مطلع برائے بیت لگ رہا ہے اور عموماً شعرا مطلعوں میں خانہ پری کرتے رہتے ہیں۔ دونوں مصرعوں میں ایک ہی بات ہے کہ ہم نے الٹی گنگا بہا دی ہے۔اس کے بر عکس کیا خوب شعر ہے کسی کا:

خرد کا نام جنوں پڑ گیا ،جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہاں الٹی گنگا بہنے کی توجیہہ بیان کی گئی ہے اور کیا خوب بیان کی گئی ہے کہ یہ سب حسن کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔
مزید وضاحت کے لیے آپ ہی کی غزل کی بحر و ردیف میں ایک اور غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں:



حد نظر تک صرف دھواں تھا برق پہ کیوں الزام رکھیں

آتش گل سے باغ جلا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

اب یہاں شاعر سے ایک فرضی مکالمہ کرتے ہیں :
قاری:کیوں بھائی صاحب گل سے بھی کبھی باغ جلا ہے ؟
شاعر: گل سے نہیں باغ تو آتش سے جلا ہے ۔
قاری:آتش کہاں سے آئی ؟
شاعر:آتش گل ترکیب سے ،یا اس ترکیب کو ہی شعری روایت سے بے دخل کر دیجیے یا میرا مصرع گوارا کر لیجیے۔

لیجیے دیکھا آپ نے شاعر کے پاس اس مصرع کی بھی توجیہہ موجود ہے خواہ وہ شعری روایت سے ہی کیوں نہ اخذ کی گئی ہو ۔القصہ علوی بھائی مبالغے میں بھی کوئی توجیہہ چاہیے ظاہر ہے شعر کوئی کرتب تو ہے نہیں کہ پہلے خالی رومال لہرایا جائے اور کچھ ہی دیر میں اس سے کبوتر برآمد کر کے دکھا دیا جائے۔😊

قطرہ اگر دوسرے قطرے سے ملے تو مقدار میں بڑھ جاتا ہے . یہاں یہی کہنا مقصود ہے .

میں اس پہ آپ کو پچھلے تبصرے میں تجویز دینے والا تھا کہ مصرع یوں ہوتا تو زیادہ صاف ہوتا۔

قطرہ قطرہ مل کر اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے

مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ مثل آپ کے پہلے مصرع سے ہم آہنگ نہیں اور کچھ دولختی سی پیدا ہو رہی ہے ۔پہلے مصرع میں آپ استقامت کی بات کر رہے ہیں اور یہ مثل عموماً استقامت کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتی۔
واللہ اعلم بالصواب
 
آخری تدوین:
علوی بھائی السلام علیکم



ردیف ہی آپ نے وہ منتخب کی ہے جسے نبھانا احتیاط کا متقاضی ہے۔
آپ خود دیکھیے:
1-اسلم جھوٹا بھی ہو سکتا ہے لہذا اس کی باتیں مت مانو-
2-اسلم جھوٹا ہے لہذا اس کی باتیں مت مانو۔


دوسرا جملہ نہیں کھٹک رہا وجہ نہ کھٹکنے کی یہی ہے کہ اس میں :جھوٹا بھی ہو سکتا ہے: کی محتاط عبارت نہیں۔


یہاں میں چاہوں گا کہ آپ کچھ روشنی ڈالیں کہ علامت سے آپ کی کیا مراد ہے اور اگر اسے کوئی استعارہ سمجھ رہا ہو تو کیا ٹھیک سمجھ رہا ہے ؟مطلب یہ کہ برف اور شعلہ کو علامت سمجھا جائے تو کیوں اور استعارہ نہ سمجھا جائے تو کیوں نہیں ؟

بالفرض آپ کے مصرع میں برف اور شعلہ دونوں علامات ہیں پھر بھی کیا ان کے مابین ربط کا نہ ہونا جائز ہے؟ یعنی کیا اس بیانیے میں ربط توجیہہ نہیں ہونا چاہیے؟


مجھے تو لگتا ہے کہ مبالغوں میں بھی کوئی ربط توجیہہ ہونا چاہیے ۔



یہ شعر تو احمد مشتاق کا ہلکا شعر ہے۔مجھے تو اس میں کوئی علامت نظر نہیں آتی الا یہ کہ یہ کوئی مسلسل غزل کا مطلع ہو اور آگے جا کے شبنم ریت وغیرہ پہ مزید روشنی ڈالی گئی ہو۔ فی الحال تو یہ مطلع برائے بیت لگ رہا ہے اور عموماً شعرا مطلعوں میں خانہ پری کرتے رہتے ہیں۔ دونوں مصرعوں میں ایک ہی بات ہے کہ ہم نے الٹی گنگا بہا دی ہے۔اس کے بر عکس کیا خوب شعر ہے کسی کا:

خرد کا نام جنوں پڑ گیا ،جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہاں الٹی گنگا بہنے کی توجیہہ بیان کی گئی ہے اور کیا خوب بیان کی گئی ہے کہ یہ سب حسن کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔
مزید وضاحت کے لیے آپ ہی کی غزل کی بحر و ردیف میں ایک اور غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں:



حد نظر تک صرف دھواں تھا برق پہ کیوں الزام رکھیں

آتش گل سے باغ جلا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

اب یہاں شاعر سے ایک فرضی مکالمہ کرتے ہیں :
قاری:کیوں بھائی صاحب گل سے بھی کبھی باغ جلا ہے ؟
شاعر: گل سے نہیں باغ تو آتش سے جلا ہے ۔
قاری:آتش کہاں سے آئی ؟
شاعر:آتش گل ترکیب سے ،یا اس ترکیب کو ہی شعری روایت سے بے دخل کر دیجیے یا میرا مصرع گوارا کر لیجیے۔

لیجیے دیکھا آپ نے شاعر کے پاس اس مصرع کی بھی توجیہہ موجود ہے خواہ وہ شعری روایت سے ہی کیوں نہ اخذ کی گئی ہو ۔القصہ علوی بھائی مبالغے میں بھی کوئی توجیہہ چاہیے ظاہر ہے شعر کوئی کرتب تو ہے نہیں کہ پہلے خالی رومال لہرایا جائے اور کچھ ہی دیر میں اس سے کبوتر برآمد کر کے دکھا دیا جائے۔😊



میں اس پہ آپ کو پچھلے تبصرے میں تجویز دینے والا تھا کہ مصرع یوں ہوتا تو زیادہ صاف ہوتا۔

قطرہ قطرہ مل کر اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے

مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ مثل آپ کے پہلے مصرع سے ہم آہنگ نہیں اور کچھ دولختی سی پیدا ہو رہی ہے ۔پہلے مصرع میں آپ استقامت کی بات کر رہے ہیں اور یہ مثل عموماً استقامت کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتی۔
واللہ اعلم بالصواب
یاسر بھائی ، وعلیکم السلام
مطلع پر میرے پاس کہنے كے لیے نیا کچھ نہیں ہے .
’برف کا ٹکڑا‘ اور ’شعلہ‘ واقعی استعارے ہیں . مجھے یہی کہنا چاہیے تھا . ان سے ’ٹھنڈے مزاج کا‘ اور ’بپھرنے والا‘ آدمی مراد ہے . میرے ناچیز علم كے مطابق استعاروں کا ربط حقیقت پر مبنی ہونا لازمی نہیں . اَحْمَد مشتاق کا شعر میں نے اسی لیے نقل کیا تھا . غور کیجیے کہ شبنم کا ریت اور پھول کا کانٹا بننا خلاف واقعہ ہے . یہ شعر غزل کا واحد مطلع ہے اور اِس کا غزل كے دیگر اشعار سے براہ راست کوئی تعلق نہیں . آپ نے اِس شعر کا مفہوم بہت سامنے کا اخذ کیا ہے . میری ادنیٰ رائے میں یہ شعر اتنا ہلکا نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں . :)
’قطرہ‘ والے مصرعے میں استقامت پوشیدہ ہے . قطرے کا دوسرے قطروں سے مل کر مقدار میں بڑھنااور دریا ہونا وقت لیتا ہے .
 
آخری تدوین:
Top