علوی بھائی پہلے تو داد قبول کیجیے کہ پیاری غزل ہے ۔
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
پہلے مصرع کو دیکھتے ہیں:
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
"دل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے " :بھی: کا استعمال بتا رہا ہے کہ سچا بھی ہو سکتا ہے لہذا "دل کی باتیں مت مانو" کی بجائے "سب باتیں دل کی مت مانو" کہنا چاہیے ۔یا بحر کی رعایت سے "دل کی نہ مانو سب باتیں دل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے"-کیا خیال ہے؟
اب اگلے مصرع کو دیکھتے ہیں اور پچھلے مصرع سے اس کا ربط ڈھونڈتے ہیں:
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
اگر پچھلے مصرع سے علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو اس مصرع کے دو مطلب نکلتے ہیں
»»ممکن ہے وہ اندھا ہو جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہو
»»دن میں سپنے دیکھنے والا عین ممکن ہے عنقریب اندھا ہو جائے کیونکہ وہ مستقل دن میں آنکھوں سے وہ کام لے رہا ہے جو ان کا کام نہیں ۔سو اس کی آنکھوں کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔
پچھلے مصرع میں دو مذکور ہیں ان کے ساتھ اگر دوسرے مصرع کو دیکھا جائے تو یہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں:
1-دل جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہے ممکن ہے اندھا ہو۔
2-صاحب دل جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہے ممکن ہے اندھا ہو۔
3-دل عنقریب اندھا ہو جائے گا یوں ہی اگر دن میں سپنے دیکھے گا
4-صاحب دل عنقریب اندھا ہو جائے گا اگر یوں ہی دن بھر خواب سجائے گا۔
اب دونوں مصرعوں کے ربط سے دیکھتے ہیں کہ ان چار مطالب میں سے کون سا رہتا ہے۔
قاری کا شعر پڑھتے ہی پہلے مطلب کی طرف دھیان جاتا ہے کہ جو میری رائے میں ٹھیک نہیں۔کیونکہ اندھے کی انجانے میں کی گئی خلاف واقعہ بات جھوٹ نہیں ہو سکتی ۔ہاں جان بوجھ کر خلاف واقعہ بات کرنا جھوٹ ہے۔
دوسرے اور تیسرے مطلب سے بھی مصرعے مربوط نہیں ہو پاتے البتہ چوتھا مطلب ایسا ہے کہ جو دونوں مصرعوں میں ربط فراہم کرتا ہے ۔تاہم یہ مطلب فوری ذہن میں نہیں آتا ۔
میری رائے میں شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ دل کی ہر بات ماننے والی نہیں ہوتی کیونکہ دل جھوٹ بھی بولتا ہے ،دل کی ہر بات ماننے کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ دن میں بھی خواب ہی خواب دکھائی دیں گے اور آنکھیں کام کی نہ رہیں گی۔
اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے
واہ بہت خوب ۔
اچھے اقوال زریں ہیں ماشاء اللہ۔
واہ۔اچھا ہے۔
علوی بھائی یہ خلاف واقعہ بات ہے ۔دبی ہوئی چنگاری کا شعلہ بن کر آگ پکڑنا تو خلاف واقعہ نہیں البتہ برف کو شعلہ بنتے نہیں دیکھا ۔کبھی آپ نے دیکھا ہو تو ضرور بتائیے گا۔
یہاں بھی دوسرا مصرع کھٹک رہا ہے ۔
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن بچہ تو ہو سکتا ہے دریا کیسے ہو سکتا ہے؟
قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے محاورہ سنا ہے اور غالب کا یہ مصرع بھی پڑھا ہے ۔
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
لیکن آپ کا مصرع کچھ عجیب لگ رہا ہے۔
امید ہے اپنے فیض سے محروم نہیں فرمائیں گے۔
یاسر بھائی ، آپ کی داد باعث صد مسرت ہے . شکریہ اور جزاک اللہ .
مطلع کا خیال بہت پیچیدہ تو نہیں ، لیکن ممکن ہے صفائی سے ادا نہ ہو سکا ہو . میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ دِل ، جو تصورات میں کھویا رہتا ہے ، اکثر اندھے کی طرح اصلیت دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے . اور عین ممکن ہے کہ اسی وجہ سے وہ انجانےمیں آپ کو غلط تجویز دے دے . لہذا ضروری ہے کہ دِل کی تجاویز ( غور و فکر كے بغیر ) نہ مانی جائیں . اب جہاں تک ’سب باتوں‘ اور ’چند باتوں‘ کا سوال ہے ، تو یاسر بھائی ، نصیحت ناپ تول کر کون کرتا ہے !
اور شاعری میں تو یوں بھی مبالغہ عام ہے .
’برف کا ٹکڑا‘ اور ’شعلہ‘ سے یہاں لفظی معنی مراد نہیں . یہ علامتیں ہیں ، مندرجہ ذیل شعر کی طرح :
شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہَم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا ( اَحْمَد مشتاق )
قطرہ اگر دوسرے قطرے سے ملے تو مقدار میں بڑھ جاتا ہے . یہاں یہی کہنا مقصود ہے .