غزل: رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں ٭ اعجاز رحمانی

رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں
وہ گمرہی کے بھی اسباب بھول جاتے ہیں

کمند چاند ستاروں پہ ڈالنے والے
چراغِ منبر و محراب بھول جاتے ہیں

جو آ کے ڈوب گئے شہر کے سمندر میں
وہ اپنے گاؤں کے تالاب بھول جاتے ہیں

تری قبا کے دھنک رنگ دیکھنے والے
ردائے انجم و ماہتاب بھول جاتے ہیں

انہیں بہار کی پروا نہ تتلیوں کا خیال
جو توڑ کر گلِ شاداب بھول جاتے ہیں

جو بات کہنا ضروری ہے روبرو اس کے
وہ بات ہم دلِ بیتاب بھول جاتے ہیں

گزر گئی جنہیں آنچل کی تیرے چھو کے ہوا
حریر و اطلس و کمخواب بھول جاتے ہیں

کوئی بتائے تو تعبیر کیا بتائے ہمیں
سحر کو رات کے ہم خواب بھول جاتے ہیں

میں دشمنوں کو بھی اعجازؔ یاد رکھتا ہوں
مگر مجھے مرے احباب بھول جاتے ہیں

٭٭٭
اعجازؔ رحمانی
 

عرفان سعید

محفلین
Top