غزل: زمانہ ہر اک پل تغیّر میں تھا

محمداحمد

لائبریرین
ایک پرانی غزل ۔ احباب کے ذوق کی نذر!

غزل

زمانہ ہر اک پل تغیّر میں تھا
وہی چل سکا جو تدبر میں تھا

ہوا بُرد ہوتی رہیں دستکیں
کوئی واہموں کے تحیّر میں تھا

محبت ہے کیا جان پایا نہ میں
اگرچہ ازل سے تفکر میں تھا

نگر چھوڑنے کا مرا فیصلہ
تیری الجھنوں کے تناظر میں تھا

ندامت تھی مجھ کو اُسی بات پر
کہ جس پر جہاں اک تفاخُر میں تھا

میں احمدؔ اُسے ڈھونڈتا ہی رہا
جو تھا بھی تو میرے تصوّر میں تھا

محمد احمدؔ

یاد نہیں پڑتا کہ میں نے یہ غزل محفل میں لگائی تھی یا نہیں!لیکن ابھی ڈھونڈے سے کہیں نہیں ملی تو پھر لگا دی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت عمدہ غزل احمد بھائی۔ کیا کہنے۔
زمانہ ہر اک پل تغیّر میں تھا
وہی چل سکا جو تدبر میں تھا

ہوا بُرد ہوتی رہیں دستکیں
کوئی واہموں کے تحیّر میں تھا

محبت ہے کیا جان پایا نہ میں
اگرچہ ازل سے تفکر میں تھا

نگر چھوڑنے کا مرا فیصلہ
تیری الجھنوں کے تناظر میں تھا

ندامت تھی مجھ کو اُسی بات پر
کہ جس پر جہاں اک تفاخُر میں تھا

میں احمدؔ اُسے ڈھونڈتا ہی رہا
جو تھا بھی تو میرے تصوّر میں تھا

محمد احمدؔ
 
Top