محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن
سب ماہ جبیں حسنِ سراپا نہیں ہوتے
محفل میں بھی سب انجمن آرا نہیں ہوتے
ہم سلسلہء قیس میں بیعت ہیں جبھی تو
مر جاتے ہیں پر عشق میں رسوا نہیں ہوتے
کہتا ہے یہ پیاسوں سے سرابوں کا تسلسل
آنکھوں کے یہ دھوکے کبھی دریا نہیں ہوتے
انسان کی تکلیف پہ دل جن کا نہ تڑپے
وہ یوں تو سبھی کچھ ہوں مسیحا نہیں ہوتے
جو دور سے مجذوب نظر آتے ہیں ہم کو
نزدیک سے دیکھیں تو وہ کیا کیا نہیں ہوتے
ہر پیار کے افسانے کو شہرت نہیں ملتی
سچ یہ ہے کہ سب وامق و عذرا نہیں ہوتے
آنکھوں میں سمٹ آتی ہے آفاق کی وسعت
ہم خود ہی مگر محوِ تماشا نہیں ہوتے
سینے سے لگاتے ہیں جو یادوں کے خزینے
وہ لوگ اکیلے میں بھی تنہا نہیں ہوتے