من
محفلین
غزل
بدن کی قید میں ہے روح اور گھٹن سی ہے ادھورے خواب ہیں انکھوں میں اک چبھن سی ہے
خوشی کے زائقے چکھنے سے ہے گریز مجھے
غموں میں ڈوب کے رہنے کی اک لگن سی ہے
کبھی ہے درد کے صحرا کبھی غمِ دریا
یہ راہ عشق ازل سے ذرا کٹھن سی ہے
نہ کوئی فکرِ زمانہ نہ فکرِ ہستی ہے
کشن کی چاہ میں رادھا ابھی مگن سی ہے
خموش چپ سا ہے اتش فشاں پہاڑ مگر
جلا کہ راکھ نہ کر دے دبی اگن سی ہے
تمام گرہیں وہ جاتے ہوے تو کھول گیا
بدن پہ کیوں میرے اب تک مگر شکن سی ہے
میں آنکھ موند لوں اُٹھوں نہ پھر قیامت تک
مرے وجود میں برسوں کی اک تھکن سی ہے
یہ وحشتوں کی کہانی اداس افسانے
غزل سرا ہے جو لڑکی ہماری مَنٌ سی ہے
مَنٌ