فراق غزل - سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں -فراق گورکھپوری

غزل

سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں

یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ہائے وہ رازِ محبت جو چھپائے نہ بنے
ہائے وہ داغِ محبت جو ابھرتا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموشی
آج محفل میں فراقِ سخن آراء بھی نہیں

فراق گورکھپوری​
 

خوشی

محفلین
مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

وہا بہت خوبصورت شعر ہے سارا کلام اچھا ہے
شکریہ صحرا جی
 
صحرا جی بہت شکریہ۔ بہت اچھی غزل شیئر کی ہے آپ نے۔
(تیسرے شعر میں رنجش کی جگہ ’رنجشیں‘ تو نہیں؟؟؟ یا رنجش اضافت کے ساتھ ہے۔ دیکھ لیں‘ مجھے بھی بتائیے گا) شکریہ
 
Top