نوید صادق
محفلین
غزل
دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے
تم جو میری بات سنے بن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے
رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے
آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے
تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی
تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے
کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے
کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے
احمدؔ گہری سوچ کی خو کب پائی ہے
تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے
(سید آلِ احمد)
دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے
تم جو میری بات سنے بن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے
رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے
آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے
تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی
تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے
کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے
کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے
احمدؔ گہری سوچ کی خو کب پائی ہے
تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے
(سید آلِ احمد)