محمد تابش صدیقی
منتظم
شاد تھے صیاد نے ناشاد ہم کو کر دیا
قید راس آئی تو پھر آزاد ہم کو کر دیا
روز نا کردہ گناہوں کی سزا سہتے ہیں ہم
وقت نے کیسا ستم ایجاد ہم کو کر دیا
ہم تھے آئینہ ہماری بدنصیبی تھی کہ جو
پتھروں کے شہر میں آباد ہم کو کر دیا
اور کیا اس سے زیادہ آئے گا فن پر زوال
وقت نے کتنا بڑا استاد ہم کو کر دیا
اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں اپنی لاش
تو نے اے جذبِ وفا برباد ہم کو کر دیا
٭٭٭
عزمؔ شاکری
قید راس آئی تو پھر آزاد ہم کو کر دیا
روز نا کردہ گناہوں کی سزا سہتے ہیں ہم
وقت نے کیسا ستم ایجاد ہم کو کر دیا
ہم تھے آئینہ ہماری بدنصیبی تھی کہ جو
پتھروں کے شہر میں آباد ہم کو کر دیا
اور کیا اس سے زیادہ آئے گا فن پر زوال
وقت نے کتنا بڑا استاد ہم کو کر دیا
اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہیں اپنی لاش
تو نے اے جذبِ وفا برباد ہم کو کر دیا
٭٭٭
عزمؔ شاکری