غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن
شبِ تاریک اک دیا اور میں
وہی خوابوں کا سلسلہ اور میں
کتنی انجان منزلوں کا سفر
کتنا ویران راستہ اور میں
رات بھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں
تیری یادوں کا قافلہ اور میں
ذکر کچھ اس کی چال کا مت چھیڑ
مست ہو جایئں نہ ہوا اور میں
خوب دونوں میں جنگ ہوتی ہے
جب مقابل ہوں آیئنہ اور میں
گڑگڑا کر دعایئں کرتا ہوں
جب ہوں تنہا، مرا خدا اور میں
کتنے مانوس ہو گئے ہیں ہم
گھر کی مہکی ہوئی فضا اور میں
حفیظ الرحمٰن صاحب
ایک اچھی غزل پر میری داد قبول کیجئے
تاہم چند ایک مصرعہ میں نہ صرف خیال واضح نہیں، بلکہ تضاد بھی ہے
جیسے ' جب ہوں تنہا ، مرا خدا اور میں '
اس میں تنہائی دونوں کو میسر نہیں۔
دوسری بات، اس سے یہ بھی مفہوم نکلتا ہے کہ دونوں الگ الگ تنہا ہوں
اشعار پر اپنا خیال لکھ رہا ہوں، جو آپ کے ذہنی مشق کے لئے ہے، اور اتفاق ضروری نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'کتنی انجان منزلوں کا سفر'
منزل ذہن متعین کرتا ہے، اور کسی تعین کردہ کو انجان کہنا بھی بھلا نہیں لگ رہا ہے
کتنی ارمان منزلوں کا سفر
کتنا ویران راستہ اور میں
کچھ بھی ایسا جس سے منزل کی افادیت اور اہمیت ظاہر ہو
۔۔۔۔۔۔
ذکر کچھ اس کی چال کا مت چھیڑ
مست ہو جایئں نہ ہوا اور میں
ایک تو دوسرا مصرع وزن میں نہیں، دوسری بات آپ کا مخاطب ظاہر نہ ہونے سے شعر بھی مبہم ہے
کچھ یوں کردیں کہ :
اک غضب ہے خرامِ ناز اُس کا
مست ہو جاتی ہے ہوا اور میں
۔۔۔۔۔۔۔
گڑگڑا کر دعایئں کرتا ہوں
جب ہوں تنہا، مرا خدا اور میں
ملتمس اُس سے تیری قربت کا
جب فقط ہو مِرا خُدا اور میں
یا
میں رہُوں ملتمس ترے ہی لئے
جب فقط ہو مِرا خُدا اور میں
،
اپنی حاجت کا ذکر کرتا ہوں
جب فقط ہو مرا خدا اور میں
،
تیری رغبت کی بات رہتی ہے
جب فقط ہو مِرا خُدا اور میں
کچھ بھی ا س قسم کا
۔۔۔۔۔۔
کتنے مانوس ہو گئے ہیں ہم
گھر کی مہکی ہوئی فضا اور میں
کو یوں کرنا بہتر ہوگا ! کہ
غم سے مانوس ہوگئے دونوں
گھر کی اُجڑی ہوئی فِضا اور میں
ایک بار پھر سے میری داد
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں