غزل: شکوۂ جورِ یار کیا کرتے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

شکوۂ جورِ یار کیا کرتے
دل کا ہم اعتبار کیا کرتے

جان دے دی کہ تھی رضائے دوست
موت کا انتظار کیا کرتے

چل دیے بے قرار ہو کے ادھر
ہوگئے بے قرار کیا کرتے

عشق کا کاروبار کر ہی چکے
اور ہم کاروبار کیا کرتے

یاد ہیں سب کرشمہ ہائے کرم
داغِ دل کا شمار کیا کرتے

اس کی رحمت نہ ساتھ اگر دیتی
لوگ روزِ شمار کیا کرتے

ہو گئے ہم شکارِ حُسن عزیزؔ
حُسن کو ہم شکار کیا کرتے

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
Top