محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
ایک غزل آپ سب کے ذوق کی نذر، نصیر ترابی مرحوم کی زمین میں.
دعاگو،
راحلؔ.
.................................................
صبح آئی تھی، مگر کانچ اٹھاتے گزری
یہ تو ہونا تھا، کہ شب خواب سجاتے گزری
زیست کیوں گزری اندھیروں میں، کہوں کیا اب میں
دوستی رات سے کی تھی، سو نبھاتے گزری!
شام آئی بھی تو آئی تھی لیے بادِ سموم
داغ سینے کے سلگتے تھے، بجھاتے گزری
تیری الفت کا بھلا کیسے میں دے پاتا جواب
عمر میری تو یقیں خود کو دلاتے گزری
کیوں درخشاں نہ ترا بخت ہو تاروں جیسا
شب مری ہاتھ دعاؤں میں اٹھاتے گزری
مجھ کو غم ہجر کا ہے، اور نہ بچھڑنے کا ملال
میری ہر شام یہی خود کو بتاتے گزری
کیا کہوں گزری تھی کس کرب میں کل میری شب
حرف لکھ لکھ کے انہیں خود ہی مٹاتے گزری
وہ حقیقت نہ سہی، تھی مگر ایسی دلکش
زندگی پھر تو اسی راہ کو جاتے گزری
کس طرح روکتا جانے سے اسے میں راحلؔ
جبکہ عمر اس کو یہی بات سُجھاتے گزری
دعاگو،
راحلؔ.
.................................................
صبح آئی تھی، مگر کانچ اٹھاتے گزری
یہ تو ہونا تھا، کہ شب خواب سجاتے گزری
زیست کیوں گزری اندھیروں میں، کہوں کیا اب میں
دوستی رات سے کی تھی، سو نبھاتے گزری!
شام آئی بھی تو آئی تھی لیے بادِ سموم
داغ سینے کے سلگتے تھے، بجھاتے گزری
تیری الفت کا بھلا کیسے میں دے پاتا جواب
عمر میری تو یقیں خود کو دلاتے گزری
کیوں درخشاں نہ ترا بخت ہو تاروں جیسا
شب مری ہاتھ دعاؤں میں اٹھاتے گزری
مجھ کو غم ہجر کا ہے، اور نہ بچھڑنے کا ملال
میری ہر شام یہی خود کو بتاتے گزری
کیا کہوں گزری تھی کس کرب میں کل میری شب
حرف لکھ لکھ کے انہیں خود ہی مٹاتے گزری
وہ حقیقت نہ سہی، تھی مگر ایسی دلکش
زندگی پھر تو اسی راہ کو جاتے گزری
کس طرح روکتا جانے سے اسے میں راحلؔ
جبکہ عمر اس کو یہی بات سُجھاتے گزری