محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
عزیزان گرامی، آداب!
ایک تازہ غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر. امید ہے آپ سب اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں گے.
دعاگو،
راحلؔ
..............................................................
صرف دھرتی پہ نہیں، نیل گگن سے آگے
نقشِ پا ہے مرا ہر نقشِ کہن سے آگے!
منزلِ جوئے سخن بحرِ تفکر میں ڈھونڈ
عشقِ فرسودہ کے ان کوہ و دمن سے آگے
وقت سے ہارا یا جیتا میں، ہے کہنا مشکل
ضبط کہ ٹوٹا، پہ ہر رنج و محن سے آگے
زیرِ دیوارِ چمن گل ہیں کئی پژمردہ
دیکھ لیں اہلِ چمن کاش چمن سے آگے
کیسے انگشت بہ دنداں ہیں سبھی اہلِ ہوس
جڑ بھی سکتا ہے کوئی رشتہ بدن سے آگے!
اک اجالا سا تھا، گو سینہِ شب چاک نہ تھا
ضوئے امید تھی سورج کی کرن سے اگے
وسعتِ عقل تمہاری مجھے تسلیم، مگر
کاش بڑھتی یہ کبھی شرّ و فتن سے آگے
کیوں نہیں بڑھ کے لگاتی ہے گلے ارضِ وطن
کیا کہیں اپنا ٹھکانا ہے وطن سے آگے؟
رہ گیا عشق کہیں راہ میں پیچھے راحلؔ
منزلیں اور بھی تھیں اس کی لگن سے آگے!
ایک تازہ غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر. امید ہے آپ سب اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں گے.
دعاگو،
راحلؔ
..............................................................
صرف دھرتی پہ نہیں، نیل گگن سے آگے
نقشِ پا ہے مرا ہر نقشِ کہن سے آگے!
منزلِ جوئے سخن بحرِ تفکر میں ڈھونڈ
عشقِ فرسودہ کے ان کوہ و دمن سے آگے
وقت سے ہارا یا جیتا میں، ہے کہنا مشکل
ضبط کہ ٹوٹا، پہ ہر رنج و محن سے آگے
زیرِ دیوارِ چمن گل ہیں کئی پژمردہ
دیکھ لیں اہلِ چمن کاش چمن سے آگے
کیسے انگشت بہ دنداں ہیں سبھی اہلِ ہوس
جڑ بھی سکتا ہے کوئی رشتہ بدن سے آگے!
اک اجالا سا تھا، گو سینہِ شب چاک نہ تھا
ضوئے امید تھی سورج کی کرن سے اگے
وسعتِ عقل تمہاری مجھے تسلیم، مگر
کاش بڑھتی یہ کبھی شرّ و فتن سے آگے
کیوں نہیں بڑھ کے لگاتی ہے گلے ارضِ وطن
کیا کہیں اپنا ٹھکانا ہے وطن سے آگے؟
رہ گیا عشق کہیں راہ میں پیچھے راحلؔ
منزلیں اور بھی تھیں اس کی لگن سے آگے!
آخری تدوین: