غزل ضرور لکھیں ! مگر زیر نظر تحریر ضرور دیکھیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
مجھے محفل کو جوائن کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر میرے لئے کافی اچھا ثابت ہوا کیونکہ مجھے ایک ایسا فورم ملا جہاں میں آپ لوگوں سے کافی کچھ سیکھ رہا ہوں، میرا خیال ہے کہ میں ایک مرتبہ پھر اپنا تعارف مختصرا پیش کردوں، میرا نام ڈاکٹرایم یونس رضا ہے، نگر نگر کی سیر کے دوران میں نے ایک بات شدت سے محسوس کی اور وہ تھی زبان۔ ۔ ۔ میں جہاں بھی گیا وہاں پر لوگوں کو اپنی زبان سے عشق میں مبتلا دیکھا اور جنون کی حد تک ۔ ۔ ۔ ماسوائے ھندوستان اور پاکستان کے ۔ ۔ باقی تمام ممالک میں، میں نے واضح محسوس کیا کہ لوگ اپنی زبان پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ۔ اپنے کلچر کا تذکرہ فخریہ انداز میں کرتے ہیں۔ ۔ ۔ میں نے لیاقت میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی، بچپن سے جوانی صرف انگریزی ماحول رہا، اور اردو صرف نصاب کی حد تک رہی اور نصاب میں بھی صرف واجبی سی ! اعلی تعلیم کے سلسلے میں میرا سفر چین، کینیڈا، امریکہ، سری لنکا، فلپائن، بھارت،آسٹریلیا کا رہا، اور ریسرچر کی حیثیت سے نگر نگر کی سیر میرا معمول ہے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک موسیقار اور مصور بھی ہوں، بلکہ یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ میں ایک آرٹسٹ ہوں اور پھر ایک ڈاکٹر۔۔ ۔ ۔ ۔ وائلن اور گٹار کے شوق میں اچھے استاد بچپن میں میسر آتے اور جہاں موسیقی کی بات ہوگی وہاں غزل کا تذکرہ ضرور ہوگا سو اچھی شاعری سے واسطہ پچپن سے رہا ۔ ۔ ۔ اب میں چھتیس سال کا ہوبے والا ہوں مگر ایک بات آج تک دکھ دیتی ہے کہ ہم اپنی زبان کو نجی محافل سے آگے نہ لے جا سکے۔ جبکہ باقی زبانیں اب بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہیں ۔ ۔ ۔
بہرحال میں نے محفل جوائن کی آپ لوگوں سے سیکھنے کا موقع مل رہا ہے اور اب شیئر کرنا اچھا بھی لگتا ہے ۔ ۔ یہاں میں نے ایک بات محسوس کی جو کہ خاصی حوصلہ افزا ہے وہ یہ کہ اب نوجوان نسل میں شاعری کا شوق پروان چڑھ رہا ہے، کچھ نئے شعرا کا کلام بھی سننے کو ملا، ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ہمارے ساتھیوں میں سے اکثر کو یہ علم نہیں ہے کہ شاعری کی تھیوری کیا ہے، اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں، بسا اوقات وہ نظم اور غزل کی کیفیت میں جو لکھتے ہیں اس کو غزل کہ ڈالتے ہیں، وغیرہ وغیرو۔۔ ۔ ۔ ۔ دوستو دنیا کی ہر زبان کی طرح اور ہر علم کی طرح اردو زبان بھی اصول و ضوابط کے بندھن میں بندھی ہوئ ہے ، ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم نے اس کو لشکری زبان کا لقب دے کر جس غلطی کا بار بار اعادہ کیا اور جس کی وجہ سے اردو باوجود ایک عظیم ادبی خزانہ رکھنے کے ایک عطائ حکیم کے نسخوں سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرسکی وہ یہ تھی کہ جس نے جو لکھا اس کو حتمی جانا۔ ۔ کسی اصول کی پیروی کے بجائے اپنے خودساختہ اصول تھوپنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ کبھی کسی نے اصلاح کی کوشش کی تو اس کو اپنی توہین جانا اور آج ہم اس مقام پر ہیں کہ آج ہماری شاعری خود ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ پقول ناصر کاظمی کے " اردو کو مشکل الفاظ کا روپ دے کر ہم شاید بڑی غلطی کر رہے ہیں اور کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا، ایک ایسا وقت میں دیکھ رھا ہوں کہ ہماری آنے والی نسل ہمیں پڑھے گی تو سہی مگر سمجھ نہیں سکے گی" ۔ ۔ ہوا وہی کہ کاظمی صاحب پر ایک خاص طبقےکی طرف سے تنقید کی گئی انسان سمجھدار تھے سو چپ رہے اور پھر تیس سال بعد آج ہم وہیں ہیں جس کا تذکرہ کاظمی صاحب نے کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔


آیئے آج ہم بات کرنے ہیں شاعری کی ایک اہم صنف "غزل" پر۔ ۔ ۔ ۔ کہ در اصل "غزل" کیا ہے ؟ نظم اور غزل میں فرق کیا ہے ؟ غزل کے اصول و ضوابط کیا ہیں ؟ ہندوستان کے ایک نامور محقق جناب ڈاکٹر ارشد جمال صاحب نے اس سلسلے میں کافی کوششیں کیں، ان کا مضمون "غزل کی تاریخ" کافی مشہور ہوا تھا۔ ۔ مگر ہوا وہی کہ ایک خاص طبقہ نے تنقید کا نشانہ بنایا کہ اردو کو "الجبرا" کے اصول میں باندھنے کی کوشش ہے۔ ۔ ۔

بہرحال آج ہم بات کرتے ہیں "غزل" پر ۔ ۔ ۔ ۔
"غزل کی کلاسیکل تعریف"۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غزل چند اشعار پر مبنی ہوتی ہے اور ہر شعر بذات خود ایک نظم ہوا کرتا ہے۔ ایک غزل مطلع، مقطع، بحر، کافیہ اور ردیف کے اصولوں سے مزین ہوتی ہے۔ ذیل کی مثال ہمارے مضمون کا حصہ رہے گی ۔ ۔ ۔

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں، جہاں سے ھمکو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے "غالب"
شرم تم کو مگر نہیں آتی

شعر کیا ہے ؟ شعر دو مصرعوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور ایک مکمل نظم بھی ہوا کرتا ہے، ایک شعر کو اپنے اطراف سے معنویت کا سہارا تلاش نہیں کرنا پڑتا ہے مندرجہ بالا چاروں اشعار اس کی مثال ہیں۔ ۔ سو یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ شعر دو مصرعوں پر مبنی ایک نظم ہوا کرتی ہے جو اپنی معنویت میں آزاد ہوتا ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہمیشہ شعروں پر مشتمل کوئ چیز غزل نیہں ہوا کرتی ہے۔ جب نک کہ وہ کافیہ اور ردیف کے بندھن میں نہ بندھی ہو۔

بحر کیا ہے ؟۔ ۔ ۔ بحرکو شعر کا پیمانہ کہا جا سکتا ہے ۔ ۔ یہ شعر کی طوالت ظاہر کرتا ہے، ایک شعر کے دونوں مصرعے ایک جیسی بحر میں ہونے چاہئیں اور ایک غزل کے تمام اشعاربھی ایک بحر میں ہونے چاہئیں۔ کلاسیکل اردو میں بحر کی انیس اقسام کا تذکرو ملتا ہے مگر ہم یہاں صرف ضروری اور بنیادی بات کریں گے ۔ بحر کی تین اقسام ہیں چھوٹی ، درمیانی اور طویل۔ ۔۔ ۔ ۔
چھوٹی بحر:
اہل دہر و حرم رہ گئے
تیرے دیوانے کم رہ گئے
درمیانی بحر:
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
طویل بحر:
اے میرے ہم نشیں، چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں کی تو سہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

سو یہ واضح ہوا کی ایک غزل ایک جیسی بحر میں ہونی چاہئیے۔

ردیف کیا ہے ؟

شعر کی آخری مصرعے کے الفاظ ایک جیسے ہونے چاہیئیں مثلا " نہیں آتی " ۔۔۔ " ذرا آہستہ چل" وغیرہ

کافیہ کیا ہے ؟

ردیف سے پہلے مصرع کی چال کو کافیہ کہتے ہیں جیسے غالب کی مندرجہ بالا غزل ۔۔۔ " بار ۔۔ نظر"۔۔۔ "پر۔۔۔ مگر" وغیرہ

اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ ایک غزل ایک جیسی بحر میں ہو ۔۔۔ اس کا اختتام ایک جیسے ردیف پر ہے اور کافیہ یکساں ہو۔

مطلع کیا ہے ؟

کسی غزل کےپہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں ایک جیسا ردیف ہو اسے مطلع غزل کہتے ہیں اور غزل اس مطلع کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے ۔ ایک غزل میں ایک سے زیادہ مطلع بھی ہو سکتے ہیں، اور اسکو مطلع ثانی یا حسن مطلع کہا جاتا ہے۔

مقطع کیا ہے ؟

ایک شاعر بطور تخلص جس نام کو اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔ جیسے اسد اللہ خان "غالب"۔۔۔۔ یا "شکیل بدایونی"۔۔۔۔ یا "ناصر کاظمی" یہ ضروری نہیں کہ وہ تخلص علیحدہ استعمال کرے وہ اپنے نام کو بھی بطور تخلص استعمال کر سکتا ہے ۔ ایک شاعر بڑی خوبصورتی سے مقطع کا استعمال کرسکتا ہے جیسے ہماری اوپر کی مثال میں غالب نے خود کو مخاطب کیا ہے ۔ ۔ ایسی خوبصورتی غزل کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔ ۔ جیسے
کوئ نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص" داغ" ہے اور عاشقوں کے دل میں رہتا ہے

جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کیسے ہو "شکیل"
اس سے آگے تو کوئ بات نہیں ہوتی ہے

سو اسکو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک غزل مجموعہ ہوتی ہے ۔۔۔ اشعار کا ۔۔۔ جس کا ہر شعر ایک جیسی بحر میں ہوتا ہے ۔۔۔ اس میں کم از کم ایک مطلع اور مقطع ہوتا ہے ، جس میں ردیف اور کافیہ یکساں ہوتا ہے۔۔۔

بہت کم ہوتا ہے کہ کچھ غزلوں میں ردیف نیہں ہوتا ایسی غزلوں کو "غیر مردف" کہا جاتا ہے ۔

تو دوستو میں نے کوشش کی ہے کہ آسان اور سلیس اردو میں بیان کرسکوں تاکہ یہ شکوہ خود مجھے نا رہے کہ جو میں نے لکھا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔۔ بہرحال میرا مشورہ ہےکہ نئے شعرا خواتین اور حضرات کو مندرجہ بالا چیزوں کا خیال رکھنا چا ہئیے اس سے وہ اپنی شاعری میں چار چاند لگا سکتے ہیں اور کلاسیکل غزل کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ یہ مضمون اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو محض ایک لشکری زبان نہیں ہے اس کی اپنی خوبصورتی اس کی گرامر پر اور اصول و ضوابط پر قائم ہے۔ یہ زبان اپنی اندربذات خود ایک جامع اور مکمل درسگاہ ہے۔
آیئے فروغ اردو کی طرف ایک قدم اور بڑہائیں

یونس رضا
 

شمشاد

لائبریرین
یونس صاحب بہت شکریہ آپ کا۔ آپ نے اردو زبان اور غزل کے بارے میں بہت ہی مفصل اور جامع لکھا ہے۔
 
شکریہ شمشاد صاحب ! میں سری لنکا سے رات کو واپس آیا ہوں۔ مگر اک عجب سی خلش لیکر چلا تھا وھاں سے۔ ۔ ۔ سو راستے میں یہ مضمون لکھا
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے یونس، لیکن اس سے لشکری زبان کا کیا تعلق؟ لشکری زبان محض اردو کی تاریخ بیان کرتے وقت کہا جاتا ہے۔ اور اس پر بھی سمجھوتا تو نہیں ہو سکا کہ اردو کا مولد کہاں مانا جائے اور اس کی ابتداء کہاں سے شروع کی جائے۔ ہندی کو اردو کا ایک لہجہ مانا جائے یا اردو کو ہندی کی ایک ’شیلی‘۔ بقول گیان چند۔
بہر حال یہاں بھی شاعری پوسٹ کرنے والے جو غزل کہتے ہیں، اس میں سارے عناصر کا التزام ہوتا ہے، محض اوزان اور عروض سے واقف نہیں ہوتے اس لئے ان کا کلام محض خوب صورت نثر بن کر رہ جاتا ہے۔
 

دوست

محفلین
اوزان اور عروض کے لیے ضروری ہے کہ اردو کی صوتیات پڑھانے کا کوئی انتظام ہو۔۔۔یہاں لوگوں کو ک اور ق کا فرق ہی نہیں پتا۔۔۔
اوزان کے لیے لمبی اور چھوٹی آوازوں کو الگ کرنا کم از کم میرے لیے ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ کبھی بھی لمبی اور چھوٹی آوازوں کو الگ نہیں کرسکا۔۔یہ ہی سمجھ نہیں آتا کہ اردو میں syllable کس بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اوزان اور عروض کے لیے ضروری ہے کہ اردو کی صوتیات پڑھانے کا کوئی انتظام ہو۔۔۔یہاں لوگوں کو ک اور ق کا فرق ہی نہیں پتا۔۔۔
اوزان کے لیے لمبی اور چھوٹی آوازوں کو الگ کرنا کم از کم میرے لیے ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ کبھی بھی لمبی اور چھوٹی آوازوں کو الگ نہیں کرسکا۔۔یہ ہی سمجھ نہیں آتا کہ اردو میں syllable کس بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔

شاکر صاحب بڑی اور چھوٹی آواز یا Short اور Long syllable کی اردو میں پہچان یہ ہے کہ وہ حرف (چاہے وہ متحرک ہو یا ساکن) جو کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو، اسے ہجائے کوتاہ یا چھوٹی آواز یا Short Syllable کہتے ہیں اور ہر وہ حرف جو کسی دوسرے حرف کے ساتھ کسی ملا کر بولا جائے اس ہجائے بلند یا بڑی آواز یا Long Syllable کہتے ہیں۔

مثلاً آپ کا نام مُحمّد شاکر عزیز ہے، تو اس کو دیکھتے ہیں

مُحمّد کو ہم یوں syllable میں توڑیں گے۔ مُ حَم مَد - یعنی اس نام میں ایک ہجائے کوتاہ (مُ) اور دو ہجائے بلند (حم اور مد) ہیں، جدید عروض میں اس کو 1 2 2 لکھیں گے یعنی ہجائے کوتاہ کو 1 سے ظاہر کرتے ہیں اور ہجائے بلند کو 2 سے۔

شاکر میں دونوں ہی ہجائے بلند ہیں یعنی شا اور کر سو یہ 2 2 ہوگا۔

عزیز میں عَ زی ز یعنی 1 2 1 ہیں، عَ متحرک ہے اور آخری ز ساکن ہے لیکن دونوں ہی ہجائے کوتاہ ہیں۔

اسی طرح اردو، فارسی، عربی کے ہر لفظ کو syllables میں توڑا جا سکتا ہے۔

ایک شعر میں وزن پورا کرنے کیلیئے بس چھوٹے اور بڑے syllable کو پورا کرنا ضروری ہے، مثلاً

محمّد شاکر عزیز
1 2 2 2 2 1 2 1
بہت ہیں دل کے قریب
1 2 2 2 2 1 2 1

آپ دیکھیں کے دونوں 'مصرعوں' میں 1 اور 2 اسی ترتیب سے آ رہے ہیں اور تعداد بھی ایک جیسی ہے سو یہ 'شعر' وزن میں ہے۔

یہ ایک انتہائی سادہ سی مثال ہے کیونکہ بحروں کی اپنی پچیدہ ترتیب ہوتی ہے۔

میرا ارادہ ہے آسان علم عروض پر کچھ لکھنے کا لیکن افسوس وقت کی قلت درپیش ہے۔
 

دوست

محفلین
ا لف ن ظا می
1 2 1 2 1
میں نے کوشش کی ہے کہ بڑی اور چھوٹی آوازوں کو پہچان سکوں۔۔۔
سلّیبل کی تعریف انگریزی کے لحاظ سے یہ ہے کہ اس میں vowel یا حرف عطف ضرور ہوتا ہے۔ یعنی آ، ای، اے، اُو، او، وغیرہ۔ میرے نام شاکر میں ش ا میں پہلا consonant اور دوسرا vowel آ ہے۔ کر میں ک consonant پھر آ واؤل اور پھر ایک consonant یعنی ر ہے۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ ہمارا اکثر تلفظ ٹھیک نہیں ہوتا۔ جس واؤل کو ہم لمبا سمجھتے ہیں وہ چھوٹا نکلتا ہے۔ یا جس کو دوسرے کےساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بذات خود ایک سلّیبل ہوتا ہے۔۔املاء کے پیمانے پر آوازوں کو بیان کرنا اور سمجھنا خاصا مشکل کام ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب بہت خوب !!
ذرا "الف نظامی" کی تقطیع تو کردیں۔

الف نظامی صاحب یہ اسطرح سے ہوگا

ا لف نَ ظا می
1 2 1 2 2

اور اگر اسکے ساتھ وزن ملائیں تو کہیں گے

بڑا ہی نامی
1 2 (1) 2 2

دیکھیں 'ہی' کو میں نے ہجائے کوتاہ لیا ہے حالانکہ یہ ہجائے بلند یعنی 2 ہے لیکن اردو شاعری میں اسکی اجازت ہے کہ کسی لفظ میں سے حرفِ علت گرا سکتے ہیں یعنی ہی سے ی گرا کر وزن پورا کیا۔ خیر یہ طولانی مباحث ہیں، آپ اپنے نام کے ساتھ اوزان ملائیے :)


میں نے کوشش کی ہے کہ بڑی اور چھوٹی آوازوں کو پہچان سکوں۔۔۔
سلّیبل کی تعریف انگریزی کے لحاظ سے یہ ہے کہ اس میں vowel یا حرف عطف ضرور ہوتا ہے۔ یعنی آ، ای، اے، اُو، او، وغیرہ۔ میرے نام شاکر میں ش ا میں پہلا consonant اور دوسرا vowel آ ہے۔ کر میں ک consonant پھر آ واؤل اور پھر ایک consonant یعنی ر ہے۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ ہمارا اکثر تلفظ ٹھیک نہیں ہوتا۔ جس واؤل کو ہم لمبا سمجھتے ہیں وہ چھوٹا نکلتا ہے۔ یا جس کو دوسرے کےساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بذات خود ایک سلّیبل ہوتا ہے۔۔املاء کے پیمانے پر آوازوں کو بیان کرنا اور سمجھنا خاصا مشکل کام ہے۔


شاکر صاحب آپ نے صحیح کہا، لیکن انگلش اور اردو کے حروفِ علت میں فرق یہ ہے کہ اردو، عربی، فارسی میں دو طرح کے حروفِ علت ہوتے ہیں، Long Vowels جو کہ ا، و، اور ی ہیں لیکن انکے ساتھ Short Vowels بھی ہوتے ہیں جو کہ زیر، زبر اور پیش ہیں جنہیں ہم اضافت بھی کہتے ہیں۔

اب 'محمّد' میں کوئی حرفِ علت نہیں ہے بلکہ سارے حروف ہی consonant ہیں لیکن اس میں تین syllables ہیں اور وجہ یہ ہے کہ حَم اور مَد ایک short vowel یعنی زبر کے ساتھ دوسرے لفظ سے مل رہے ہیں سو یہ ہجائے بلند ہیں اور شروع کا 'م' تنہا ہے گو پیش کے ساتھ متحرک ہے سو یہ ایک ہجائے کوتاہ ہے۔
 

دوست

محفلین
جی فونیٹکس میں یہ کام املاء سے نہیں اس کے لیے الگ سے علامات موجود ہیں۔ انگریزی میں لانگ واؤلز بھی ہیں۔ میں تو اس کے لیے پہلے اردو کے فونولوجی سیکھنا پسند کروں گا۔ تاکہ آوازوں کی صحیح پہچان ہو پھر آگے کام ہوسکے گا۔۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ املاء یعنی لکھتے وقت جو زیر زبر پیش اصل میں چھوڑ دی جاتی ہے وہ آواز میں بولی جاتی ہے۔ ہم اسے انٹرنیشنل فونیٹک الفابیٹ میں اسی لیے ظاہر کرتے ہیں۔۔چونکہ جو کچھ بولا جاتا ہے ضروری نہیں ان "آوازوں' کو ایسے ہی لکھا بھی جائے۔۔یہی چیز پھر مسئلہ پیدا کرتی ہے جب زبان کا ردھم سیکھنا ہو تو۔۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ڈاکٹر صاحب آپ نے غزل کے بارے میں اپنی اس تحریر کے ذریعے ایک ایسے علمی سلسلے کا آغاز کر دیا ہے جس کے ذریعے زبان اور زبان دانی کے یہ پہلو ہم جیسے کم فہموں پر آشکار ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں پر موجود ان با کمال اور قابل حضرات کے علم سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع بھی مل رہا ہے جو بلا شبہ ہماری اس محفل کا سرمایہ ہیں۔
 
میرا مقصد محض شاعری کا شوق رکھنے والے نئے شعرا خواتین و حضرات کو یہ بتانا تھا کہ اصولوں کی پیروی کئے بغیر کچھ بھی لکھتے رہنا صرف عمر کا ضایع کرنا ہے، میں نے صرف نئے اور پرانے لکھنے والے جو قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کرتے ان کو سمجھانا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے ایک ماہ میں نئے شعرا کا جتنا بھی کلام دیکھا اس میں غلطیاں دیکھیں، یہ بھی اچھا ہے کہ ان کا حوصلہ بڑہایا گیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم شاباشی دیتے رہیں اور اصلاح کی کوشش ہی نہ کی جائے، زیادہ وقت گزر جائے تو پھر غلطی "صحیح" کا عنوان بن جاتی ہے۔ دیگر اقوام سے جب میں اپنی قوم کا موازنہ کرتا ہوں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں غلطیوں پر تنقید کی برداشت نہیں ہے،
دو دن قبل جب میں کولمبو سے چلا تو ایک چینی پرفیسر نے اردو سیکھنے کے لئے پاکستان آنے کا بتایا اس کی خوشی کچھ ایسی تھی کہ جیسے خزانہ لوٹنے جا رہا ہو، اور ایک ہم ہیں کہ اپنی زبان سے خود آشنا ہونے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ،
بہرحال دوستو ! اردو زبان فی زمانہ ایک ایسی چاربائ پر محو استراحت ہے جس میں کافی کھٹمل ہیں ، سو میری گزارش صرف اتنی ہے کہ کوشش کریں کہ مزید کھٹمل پیدا نہ ہونے پائیں، اس لئیے نصیحتوں کی املتاس اس کی اردون میں لگائیں، اللہ اس کی بڑی جزا دے گا، ورنہ اردو سر تا پیر کھجا کھجا کر مر جائے گی ، کیونکہ بعض کھٹمل کافی صحت مند ہو گئے اب ان کو املتاسی اصلاح کی نہیں تنقیدی کھٹملین کی ضرورت ہے، پاجامے کی جگہ جینز نے لی تو کوئی بات نہیں ، شاعر ہے کچھ بھی پہنے مگر کلاسیکل اردو کی جگہ جدید کلاسیکل اردو کی اصطلاح اچھی نہیں ہو گی۔ ۔ ۔ شاید میری بات آپ لوگ سمجھ رہے ہونگے !

عزیزو ! میں کافی عرصہ بعد ایک ایسا فورم دیکھ رہا ہوں جہاں سے ہم لوگوں کی صحیح راہنمائی کرسکتے ہیں، سو "محفل" کو استعمال کریں۔ ۔ ۔ جب بیڑا اٹھایا ہے تو پار لگا ئیں، آپ سب لوگ اچھا کام کر رہے ہیں ۔ ۔ ماشا اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اب میں جہاں بھی رہوں مسلسل آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں اور سیکھ سکتا ہوں۔ ورنہ پہلے مہینوں انتظار کے بعد اپنے لوگوں سے ملنا ہوتا تھا، ٹیکنالوجی کا یہ فائدہ ہم جیسے نالائقوں کے لئے تو نعمت ہے ،

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
یہ بات درست ہے یونس کہ کبھی میرا بھی گزر دوسری فورمس میں ہوا ہے، اگرچہ میں رومن اور تصویریں دیکھ کر بھاگ لیتا ہوں، لوگوں کو اپنی ایسی بے تکی شاعری پوسٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور تعجب ہے کہ دوسرے ارکان تعریفوں کے ڈونگرے برساتے ہیں۔
 
یہ بات درست ہے یونس کہ کبھی میرا بھی گزر دوسری فورمس میں ہوا ہے، اگرچہ میں رومن اور تصویریں دیکھ کر بھاگ لیتا ہوں، لوگوں کو اپنی ایسی بے تکی شاعری پوسٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور تعجب ہے کہ دوسرے ارکان تعریفوں کے ڈونگرے برساتے ہیں۔

بھئی بے تکی تعریف کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے کاٹن کے کرتے پہ سرخ ساٹن کا پاجامہ ! :) گھر میں تو چل جائے گا مگر باہر :newbie::newbie:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یونس رضا بھائی بہت شکریہ یہ تحریر میری نظر سے بہت دیر سے گزری لیکن بہت اچھی لگی ہم جیسے نئے لکھنےوالوں کے لیے تو یہ بہت کارآمد ہے اگر اس کو تسلی سے پڑھا جائے اور اس پر عمل بھی کیاجائے کوئی بھی کام کرنا مشکل نہیں ہوتا انسان ہر کام کر لیتاہے لیکن کام کو اگر طریقے سے کیا جائے تو وہ پیارا لگتا ہے اسی طرح شاعری کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہے لیکن اس کو اصول کے مطابق ہو تو پھر مزہ آتا ہے ویسے تو قافیہ ردیف تو میں بھی بنا لتا ہوں لیکن بحر کےمطابق ہوتا پھر پتہ چلتا ہے شاعری کیا ہے بہت شکریہ یونس رضا بھائی بہت شکریہ
خرم شہزاد خرم
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث صاحب بہت خوب، وارث صاحب میرے ذہن میں چند سوال ہیں۔
1۔ کیا ہم بغیر کسی مقرر کردہ بحر کے بھی کسی شعر کی تقتیع کر کے شعر کا وزن پورا کر سکتے ہیں یعنی ہمیں یہ پتہ نہ ہو کہ شعر کونسی بحر میں ہے اور ہم اسکی آپ کے مندرجہ بالا طریقے سے تقتیع کر کے وزن پورا کر لیں تو کیا یہ ٹھیک ہو گا؟
2۔ ایک مصرعہ ذہن میں آیا اور اسے ہم قرطاس پر لے آئے ہم کیسے جان سکیں کے یہ کونسی بحر میں ہے کہ ہم اسکا دوسرا مصرعہ کہیں اور اس بحر کے مطابق اسکا وزن پورا کر لیں۔
3۔ کیا وائوولز کو کہیں بھی گرایا جاسکتا ہے، شعر کا وزن پورا کرنے کے لیئے، جبکہ کوئی لفظ لکھنا ضروری ہو اور اس میں تبدیلی ممکن نہ ہو۔

میں یہاں اپنے نام کی تقتیع کرتا ہوں کیا یہ درست تقتیع ہے۔

راجا محمد امین
22 1 2 2 1 2 1

برائے کرم جواب سے نوازیں۔ شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب بہت خوب، وارث صاحب میرے ذہن میں چند سوال ہیں۔
1۔ کیا ہم بغیر کسی مقرر کردہ بحر کے بھی کسی شعر کی تقتیع کر کے شعر کا وزن پورا کر سکتے ہیں یعنی ہمیں یہ پتہ نہ ہو کہ شعر کونسی بحر میں ہے اور ہم اسکی آپ کے مندرجہ بالا طریقے سے تقتیع کر کے وزن پورا کر لیں تو کیا یہ ٹھیک ہو گا؟

شکریہ ساغر صاحب،

1- اگر صرف اسے نظریاتی طور پر لیں تو کر سکتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ اپنے کلام کو کسی بحر میں لانا ہی پڑے گا۔ ویسے بحریں اتنی زیادہ ہیں اور اتنی زیادہ بنائی جا سکتی ہیں کہ شاید ہی کوئی باوزن دو مصرعے ہوں جو کسی بحر کی قید میں نہ آتے ہوں۔



2۔ ایک مصرعہ ذہن میں آیا اور اسے ہم قرطاس پر لے آئے ہم کیسے جان سکیں کے یہ کونسی بحر میں ہے کہ ہم اسکا دوسرا مصرعہ کہیں اور اس بحر کے مطابق اسکا وزن پورا کر لیں۔

اس کیلیئے آپ کو بحروں پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے، لیکن ابتدائی طور پر کوشش یہ کریں کہ کوئی بحر منتخب کریں، اسکا مطالعہ کریں اور پھر اس میں قصداً شعر کہنے کی کوشش کریں اور پھر اسی بحر میں غزل کہیں اور اسی کو مشقِ سخن کہتے ہیں، جب آپ کو اس کام پر عبور ہوجائے گا تو پھر جو آمد ہوگی وہ آپ کو خود بخود بتا دے گی کہ وہ کس بحر میں ہے یا کچھ الفاظ کو بدلنے یا انکی ترتیب بدلنے سے وہ بحر میں آ جائے گی لیکن ابتدائی طور پر مشق کریں بلکہ اساتذہ کے دواوین پکڑیں اس میں سے کوئی غزل منتخب کریں اور پھر اسی زمین میں غزل کہنے کی کوشش کریں۔



3۔ کیا وائوولز کو کہیں بھی گرایا جاسکتا ہے، شعر کا وزن پورا کرنے کے لیئے، جبکہ کوئی لفظ لکھنا ضروری ہو اور اس میں تبدیلی ممکن نہ ہو۔

جو حروفِ علت الفاظ کے آخر میں آتے ہیں انکو عموماً گرایا جا سکتا ہے جیسے تھا، تھی، کا، کی، کو، میں وغیرہ میں۔ لیکن الفاظ کے درمیان گرانا جائز نہیں ہے۔ سوائے 'اور' کے اس میں 'اور' کا درمیاں والا 'و' گرا کر اسے 'ار' بنا سکتے ہیں۔

لیکن اس پر عبور حاصل کرنے کیلیئے اساتذہ کے کلام کا مطالعہ اور تقطیع کی مشق انتہائی اشد ہیں۔ اس میں اپنا ذاتی تجربہ آپ سے بیان کرتا ہوں، میں یہ کرتا تھا کہ مثلاً میر انیس کا ایک مرثیہ پکڑا، اسکی بحر جانی اور پھر اس مرثیے کے تمام شعروں کی تقطیع شروع کی، ایک مرثیے میں سینکڑوں اشعار ہوتے ہیں اور یزاروں الفاظ اور چونکہ یہ علم ہے کہ یہ سارے اشعار ایک ہی بحر میں ہیں اور کلام استاد کا لہذا شعر بے وزن بھی نہیں تو ان ہزاروں الفاظ کو استاد نے جس طریقے سے باندھا ہے انکے چلن کا مجھے علم ہوتا گیا کہ کہاں شاعر نے کس لفظ کو کس طرح باندھا ہے، کہاں گرایا ہے، کہاں بڑھایا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح میں نے مثنویوں کا بھی مطالعہ کیا کہ ان میں بھی سینکڑوں اشعار ہوتے ہیں اور ایک ہی بحر میں۔



میں یہاں اپنے نام کی تقتیع کرتا ہوں کیا یہ درست تقتیع ہے۔

راجا محمد امین
22 1 2 2 1 2 1


آپ نے بالکل صحیح تقطیع کی ہے اور مجھے خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ ادھر توجہ کر رہے ہیں۔

اب اسی وزن یعنی راجا محمد امین یعنی 22 221 121 کے وزن پر کچھ الفاظ یا جملے اور لکھیں جیسے

راجا محمد امین
مجھ کو وہ اچھےلگے ہیں

یعنی

مج کو 22
و اچ چے 1 2 2 (وہ کی ہ گرانا عام ہے)
ل گے ہیں 1 2 1 (ہیں میں نون غنہ تو شمار ہی نہیں ہوگا، باقی رہا 'ہے' اور اس میں سے ی گرا دی تو باقی رہا ہ سو وہ 1 ہے)
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث صاحب میرے پاس لفظ نہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کر سکوں کہ آپ نے اتنے مفید اور تفصیلی طریقے سے جواب سے نوازا، اور مجھ جیسے بے بحر نالائق کی رہنمائی فرمائی۔
وارث صاحب میں پھر آپکو تکلیف دیتے ہوئے گزارش کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہیکہ میں کسی شعر کی بحر کیسے جانوں اگر کسی استاد کا کوئی شعر سامنے آئے تو یہ کیسے جانوں کہ یہ کون سی بحر میں ہے؟
اور اگر کسی مصرعہ کی آمد ہو تو یہ کیسے جانوں کہ یہ کون سی بحر میں ہے کہ اسکے مطابق اسکی تقطیع کروں۔
جواب کی نوازش کا انتظار رہے گا۔ شکریہ۔
 
وارث صاحب میرے پاس لفظ نہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کر سکوں کہ آپ نے اتنے مفید اور تفصیلی طریقے سے جواب سے نوازا، اور مجھ جیسے بے بحر نالائق کی رہنمائی فرمائی۔
وارث صاحب میں پھر آپکو تکلیف دیتے ہوئے گزارش کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہیکہ میں کسی شعر کی بحر کیسے جانوں اگر کسی استاد کا کوئی شعر سامنے آئے تو یہ کیسے جانوں کہ یہ کون سی بحر میں ہے؟
اور اگر کسی مصرعہ کی آمد ہو تو یہ کیسے جانوں کہ یہ کون سی بحر میں ہے کہ اسکے مطابق اسکی تقطیع کروں۔
جواب کی نوازش کا انتظار رہے گا۔ شکریہ۔

وارث بھائی ذرا جواب عنایت فرمائیے۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی ذرا جواب عنایت فرمائیے۔۔۔۔۔


ضرور یونس صاحب، لیکن ساگر صاحب کا سوال تفصیل طلب ہے بلکہ صبر طلب ہے اور تمنا بھی بیتاب :)، بہرحال آج رات اگر ہمت جمع کر سکا تو مختصراً کچھ عرض کرنے کی کوشش کرونگا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top