مجھے محفل کو جوائن کئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر میرے لئے کافی اچھا ثابت ہوا کیونکہ مجھے ایک ایسا فورم ملا جہاں میں آپ لوگوں سے کافی کچھ سیکھ رہا ہوں، میرا خیال ہے کہ میں ایک مرتبہ پھر اپنا تعارف مختصرا پیش کردوں، میرا نام ڈاکٹرایم یونس رضا ہے، نگر نگر کی سیر کے دوران میں نے ایک بات شدت سے محسوس کی اور وہ تھی زبان۔ ۔ ۔ میں جہاں بھی گیا وہاں پر لوگوں کو اپنی زبان سے عشق میں مبتلا دیکھا اور جنون کی حد تک ۔ ۔ ۔ ماسوائے ھندوستان اور پاکستان کے ۔ ۔ باقی تمام ممالک میں، میں نے واضح محسوس کیا کہ لوگ اپنی زبان پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ۔ اپنے کلچر کا تذکرہ فخریہ انداز میں کرتے ہیں۔ ۔ ۔ میں نے لیاقت میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی، بچپن سے جوانی صرف انگریزی ماحول رہا، اور اردو صرف نصاب کی حد تک رہی اور نصاب میں بھی صرف واجبی سی ! اعلی تعلیم کے سلسلے میں میرا سفر چین، کینیڈا، امریکہ، سری لنکا، فلپائن، بھارت،آسٹریلیا کا رہا، اور ریسرچر کی حیثیت سے نگر نگر کی سیر میرا معمول ہے۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک موسیقار اور مصور بھی ہوں، بلکہ یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ میں ایک آرٹسٹ ہوں اور پھر ایک ڈاکٹر۔۔ ۔ ۔ ۔ وائلن اور گٹار کے شوق میں اچھے استاد بچپن میں میسر آتے اور جہاں موسیقی کی بات ہوگی وہاں غزل کا تذکرہ ضرور ہوگا سو اچھی شاعری سے واسطہ پچپن سے رہا ۔ ۔ ۔ اب میں چھتیس سال کا ہوبے والا ہوں مگر ایک بات آج تک دکھ دیتی ہے کہ ہم اپنی زبان کو نجی محافل سے آگے نہ لے جا سکے۔ جبکہ باقی زبانیں اب بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہیں ۔ ۔ ۔
بہرحال میں نے محفل جوائن کی آپ لوگوں سے سیکھنے کا موقع مل رہا ہے اور اب شیئر کرنا اچھا بھی لگتا ہے ۔ ۔ یہاں میں نے ایک بات محسوس کی جو کہ خاصی حوصلہ افزا ہے وہ یہ کہ اب نوجوان نسل میں شاعری کا شوق پروان چڑھ رہا ہے، کچھ نئے شعرا کا کلام بھی سننے کو ملا، ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ہمارے ساتھیوں میں سے اکثر کو یہ علم نہیں ہے کہ شاعری کی تھیوری کیا ہے، اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں، بسا اوقات وہ نظم اور غزل کی کیفیت میں جو لکھتے ہیں اس کو غزل کہ ڈالتے ہیں، وغیرہ وغیرو۔۔ ۔ ۔ ۔ دوستو دنیا کی ہر زبان کی طرح اور ہر علم کی طرح اردو زبان بھی اصول و ضوابط کے بندھن میں بندھی ہوئ ہے ، ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم نے اس کو لشکری زبان کا لقب دے کر جس غلطی کا بار بار اعادہ کیا اور جس کی وجہ سے اردو باوجود ایک عظیم ادبی خزانہ رکھنے کے ایک عطائ حکیم کے نسخوں سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرسکی وہ یہ تھی کہ جس نے جو لکھا اس کو حتمی جانا۔ ۔ کسی اصول کی پیروی کے بجائے اپنے خودساختہ اصول تھوپنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ کبھی کسی نے اصلاح کی کوشش کی تو اس کو اپنی توہین جانا اور آج ہم اس مقام پر ہیں کہ آج ہماری شاعری خود ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ پقول ناصر کاظمی کے " اردو کو مشکل الفاظ کا روپ دے کر ہم شاید بڑی غلطی کر رہے ہیں اور کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا، ایک ایسا وقت میں دیکھ رھا ہوں کہ ہماری آنے والی نسل ہمیں پڑھے گی تو سہی مگر سمجھ نہیں سکے گی" ۔ ۔ ہوا وہی کہ کاظمی صاحب پر ایک خاص طبقےکی طرف سے تنقید کی گئی انسان سمجھدار تھے سو چپ رہے اور پھر تیس سال بعد آج ہم وہیں ہیں جس کا تذکرہ کاظمی صاحب نے کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔
آیئے آج ہم بات کرنے ہیں شاعری کی ایک اہم صنف "غزل" پر۔ ۔ ۔ ۔ کہ در اصل "غزل" کیا ہے ؟ نظم اور غزل میں فرق کیا ہے ؟ غزل کے اصول و ضوابط کیا ہیں ؟ ہندوستان کے ایک نامور محقق جناب ڈاکٹر ارشد جمال صاحب نے اس سلسلے میں کافی کوششیں کیں، ان کا مضمون "غزل کی تاریخ" کافی مشہور ہوا تھا۔ ۔ مگر ہوا وہی کہ ایک خاص طبقہ نے تنقید کا نشانہ بنایا کہ اردو کو "الجبرا" کے اصول میں باندھنے کی کوشش ہے۔ ۔ ۔
بہرحال آج ہم بات کرتے ہیں "غزل" پر ۔ ۔ ۔ ۔
"غزل کی کلاسیکل تعریف"۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غزل چند اشعار پر مبنی ہوتی ہے اور ہر شعر بذات خود ایک نظم ہوا کرتا ہے۔ ایک غزل مطلع، مقطع، بحر، کافیہ اور ردیف کے اصولوں سے مزین ہوتی ہے۔ ذیل کی مثال ہمارے مضمون کا حصہ رہے گی ۔ ۔ ۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں، جہاں سے ھمکو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے "غالب"
شرم تم کو مگر نہیں آتی
شعر کیا ہے ؟ شعر دو مصرعوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور ایک مکمل نظم بھی ہوا کرتا ہے، ایک شعر کو اپنے اطراف سے معنویت کا سہارا تلاش نہیں کرنا پڑتا ہے مندرجہ بالا چاروں اشعار اس کی مثال ہیں۔ ۔ سو یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ شعر دو مصرعوں پر مبنی ایک نظم ہوا کرتی ہے جو اپنی معنویت میں آزاد ہوتا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہمیشہ شعروں پر مشتمل کوئ چیز غزل نیہں ہوا کرتی ہے۔ جب نک کہ وہ کافیہ اور ردیف کے بندھن میں نہ بندھی ہو۔
بحر کیا ہے ؟۔ ۔ ۔ بحرکو شعر کا پیمانہ کہا جا سکتا ہے ۔ ۔ یہ شعر کی طوالت ظاہر کرتا ہے، ایک شعر کے دونوں مصرعے ایک جیسی بحر میں ہونے چاہئیں اور ایک غزل کے تمام اشعاربھی ایک بحر میں ہونے چاہئیں۔ کلاسیکل اردو میں بحر کی انیس اقسام کا تذکرو ملتا ہے مگر ہم یہاں صرف ضروری اور بنیادی بات کریں گے ۔ بحر کی تین اقسام ہیں چھوٹی ، درمیانی اور طویل۔ ۔۔ ۔ ۔
چھوٹی بحر:
اہل دہر و حرم رہ گئے
تیرے دیوانے کم رہ گئے
درمیانی بحر:
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
طویل بحر:
اے میرے ہم نشیں، چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں کی تو سہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
سو یہ واضح ہوا کی ایک غزل ایک جیسی بحر میں ہونی چاہئیے۔
ردیف کیا ہے ؟
شعر کی آخری مصرعے کے الفاظ ایک جیسے ہونے چاہیئیں مثلا " نہیں آتی " ۔۔۔ " ذرا آہستہ چل" وغیرہ
کافیہ کیا ہے ؟
ردیف سے پہلے مصرع کی چال کو کافیہ کہتے ہیں جیسے غالب کی مندرجہ بالا غزل ۔۔۔ " بار ۔۔ نظر"۔۔۔ "پر۔۔۔ مگر" وغیرہ
اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ ایک غزل ایک جیسی بحر میں ہو ۔۔۔ اس کا اختتام ایک جیسے ردیف پر ہے اور کافیہ یکساں ہو۔
مطلع کیا ہے ؟
کسی غزل کےپہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں ایک جیسا ردیف ہو اسے مطلع غزل کہتے ہیں اور غزل اس مطلع کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے ۔ ایک غزل میں ایک سے زیادہ مطلع بھی ہو سکتے ہیں، اور اسکو مطلع ثانی یا حسن مطلع کہا جاتا ہے۔
مقطع کیا ہے ؟
ایک شاعر بطور تخلص جس نام کو اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔ جیسے اسد اللہ خان "غالب"۔۔۔۔ یا "شکیل بدایونی"۔۔۔۔ یا "ناصر کاظمی" یہ ضروری نہیں کہ وہ تخلص علیحدہ استعمال کرے وہ اپنے نام کو بھی بطور تخلص استعمال کر سکتا ہے ۔ ایک شاعر بڑی خوبصورتی سے مقطع کا استعمال کرسکتا ہے جیسے ہماری اوپر کی مثال میں غالب نے خود کو مخاطب کیا ہے ۔ ۔ ایسی خوبصورتی غزل کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔ ۔ جیسے
کوئ نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص" داغ" ہے اور عاشقوں کے دل میں رہتا ہے
جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کیسے ہو "شکیل"
اس سے آگے تو کوئ بات نہیں ہوتی ہے
سو اسکو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک غزل مجموعہ ہوتی ہے ۔۔۔ اشعار کا ۔۔۔ جس کا ہر شعر ایک جیسی بحر میں ہوتا ہے ۔۔۔ اس میں کم از کم ایک مطلع اور مقطع ہوتا ہے ، جس میں ردیف اور کافیہ یکساں ہوتا ہے۔۔۔
بہت کم ہوتا ہے کہ کچھ غزلوں میں ردیف نیہں ہوتا ایسی غزلوں کو "غیر مردف" کہا جاتا ہے ۔
تو دوستو میں نے کوشش کی ہے کہ آسان اور سلیس اردو میں بیان کرسکوں تاکہ یہ شکوہ خود مجھے نا رہے کہ جو میں نے لکھا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔۔ بہرحال میرا مشورہ ہےکہ نئے شعرا خواتین اور حضرات کو مندرجہ بالا چیزوں کا خیال رکھنا چا ہئیے اس سے وہ اپنی شاعری میں چار چاند لگا سکتے ہیں اور کلاسیکل غزل کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ یہ مضمون اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو محض ایک لشکری زبان نہیں ہے اس کی اپنی خوبصورتی اس کی گرامر پر اور اصول و ضوابط پر قائم ہے۔ یہ زبان اپنی اندربذات خود ایک جامع اور مکمل درسگاہ ہے۔
آیئے فروغ اردو کی طرف ایک قدم اور بڑہائیں
یونس رضا
بہرحال میں نے محفل جوائن کی آپ لوگوں سے سیکھنے کا موقع مل رہا ہے اور اب شیئر کرنا اچھا بھی لگتا ہے ۔ ۔ یہاں میں نے ایک بات محسوس کی جو کہ خاصی حوصلہ افزا ہے وہ یہ کہ اب نوجوان نسل میں شاعری کا شوق پروان چڑھ رہا ہے، کچھ نئے شعرا کا کلام بھی سننے کو ملا، ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ہمارے ساتھیوں میں سے اکثر کو یہ علم نہیں ہے کہ شاعری کی تھیوری کیا ہے، اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں، بسا اوقات وہ نظم اور غزل کی کیفیت میں جو لکھتے ہیں اس کو غزل کہ ڈالتے ہیں، وغیرہ وغیرو۔۔ ۔ ۔ ۔ دوستو دنیا کی ہر زبان کی طرح اور ہر علم کی طرح اردو زبان بھی اصول و ضوابط کے بندھن میں بندھی ہوئ ہے ، ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم نے اس کو لشکری زبان کا لقب دے کر جس غلطی کا بار بار اعادہ کیا اور جس کی وجہ سے اردو باوجود ایک عظیم ادبی خزانہ رکھنے کے ایک عطائ حکیم کے نسخوں سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرسکی وہ یہ تھی کہ جس نے جو لکھا اس کو حتمی جانا۔ ۔ کسی اصول کی پیروی کے بجائے اپنے خودساختہ اصول تھوپنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ کبھی کسی نے اصلاح کی کوشش کی تو اس کو اپنی توہین جانا اور آج ہم اس مقام پر ہیں کہ آج ہماری شاعری خود ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ پقول ناصر کاظمی کے " اردو کو مشکل الفاظ کا روپ دے کر ہم شاید بڑی غلطی کر رہے ہیں اور کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا، ایک ایسا وقت میں دیکھ رھا ہوں کہ ہماری آنے والی نسل ہمیں پڑھے گی تو سہی مگر سمجھ نہیں سکے گی" ۔ ۔ ہوا وہی کہ کاظمی صاحب پر ایک خاص طبقےکی طرف سے تنقید کی گئی انسان سمجھدار تھے سو چپ رہے اور پھر تیس سال بعد آج ہم وہیں ہیں جس کا تذکرہ کاظمی صاحب نے کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔
آیئے آج ہم بات کرنے ہیں شاعری کی ایک اہم صنف "غزل" پر۔ ۔ ۔ ۔ کہ در اصل "غزل" کیا ہے ؟ نظم اور غزل میں فرق کیا ہے ؟ غزل کے اصول و ضوابط کیا ہیں ؟ ہندوستان کے ایک نامور محقق جناب ڈاکٹر ارشد جمال صاحب نے اس سلسلے میں کافی کوششیں کیں، ان کا مضمون "غزل کی تاریخ" کافی مشہور ہوا تھا۔ ۔ مگر ہوا وہی کہ ایک خاص طبقہ نے تنقید کا نشانہ بنایا کہ اردو کو "الجبرا" کے اصول میں باندھنے کی کوشش ہے۔ ۔ ۔
بہرحال آج ہم بات کرتے ہیں "غزل" پر ۔ ۔ ۔ ۔
"غزل کی کلاسیکل تعریف"۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غزل چند اشعار پر مبنی ہوتی ہے اور ہر شعر بذات خود ایک نظم ہوا کرتا ہے۔ ایک غزل مطلع، مقطع، بحر، کافیہ اور ردیف کے اصولوں سے مزین ہوتی ہے۔ ذیل کی مثال ہمارے مضمون کا حصہ رہے گی ۔ ۔ ۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں، جہاں سے ھمکو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے "غالب"
شرم تم کو مگر نہیں آتی
شعر کیا ہے ؟ شعر دو مصرعوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور ایک مکمل نظم بھی ہوا کرتا ہے، ایک شعر کو اپنے اطراف سے معنویت کا سہارا تلاش نہیں کرنا پڑتا ہے مندرجہ بالا چاروں اشعار اس کی مثال ہیں۔ ۔ سو یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ شعر دو مصرعوں پر مبنی ایک نظم ہوا کرتی ہے جو اپنی معنویت میں آزاد ہوتا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہمیشہ شعروں پر مشتمل کوئ چیز غزل نیہں ہوا کرتی ہے۔ جب نک کہ وہ کافیہ اور ردیف کے بندھن میں نہ بندھی ہو۔
بحر کیا ہے ؟۔ ۔ ۔ بحرکو شعر کا پیمانہ کہا جا سکتا ہے ۔ ۔ یہ شعر کی طوالت ظاہر کرتا ہے، ایک شعر کے دونوں مصرعے ایک جیسی بحر میں ہونے چاہئیں اور ایک غزل کے تمام اشعاربھی ایک بحر میں ہونے چاہئیں۔ کلاسیکل اردو میں بحر کی انیس اقسام کا تذکرو ملتا ہے مگر ہم یہاں صرف ضروری اور بنیادی بات کریں گے ۔ بحر کی تین اقسام ہیں چھوٹی ، درمیانی اور طویل۔ ۔۔ ۔ ۔
چھوٹی بحر:
اہل دہر و حرم رہ گئے
تیرے دیوانے کم رہ گئے
درمیانی بحر:
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
طویل بحر:
اے میرے ہم نشیں، چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں کی تو سہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
سو یہ واضح ہوا کی ایک غزل ایک جیسی بحر میں ہونی چاہئیے۔
ردیف کیا ہے ؟
شعر کی آخری مصرعے کے الفاظ ایک جیسے ہونے چاہیئیں مثلا " نہیں آتی " ۔۔۔ " ذرا آہستہ چل" وغیرہ
کافیہ کیا ہے ؟
ردیف سے پہلے مصرع کی چال کو کافیہ کہتے ہیں جیسے غالب کی مندرجہ بالا غزل ۔۔۔ " بار ۔۔ نظر"۔۔۔ "پر۔۔۔ مگر" وغیرہ
اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ ایک غزل ایک جیسی بحر میں ہو ۔۔۔ اس کا اختتام ایک جیسے ردیف پر ہے اور کافیہ یکساں ہو۔
مطلع کیا ہے ؟
کسی غزل کےپہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں ایک جیسا ردیف ہو اسے مطلع غزل کہتے ہیں اور غزل اس مطلع کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے ۔ ایک غزل میں ایک سے زیادہ مطلع بھی ہو سکتے ہیں، اور اسکو مطلع ثانی یا حسن مطلع کہا جاتا ہے۔
مقطع کیا ہے ؟
ایک شاعر بطور تخلص جس نام کو اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔ جیسے اسد اللہ خان "غالب"۔۔۔۔ یا "شکیل بدایونی"۔۔۔۔ یا "ناصر کاظمی" یہ ضروری نہیں کہ وہ تخلص علیحدہ استعمال کرے وہ اپنے نام کو بھی بطور تخلص استعمال کر سکتا ہے ۔ ایک شاعر بڑی خوبصورتی سے مقطع کا استعمال کرسکتا ہے جیسے ہماری اوپر کی مثال میں غالب نے خود کو مخاطب کیا ہے ۔ ۔ ایسی خوبصورتی غزل کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔ ۔ جیسے
کوئ نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص" داغ" ہے اور عاشقوں کے دل میں رہتا ہے
جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کیسے ہو "شکیل"
اس سے آگے تو کوئ بات نہیں ہوتی ہے
سو اسکو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک غزل مجموعہ ہوتی ہے ۔۔۔ اشعار کا ۔۔۔ جس کا ہر شعر ایک جیسی بحر میں ہوتا ہے ۔۔۔ اس میں کم از کم ایک مطلع اور مقطع ہوتا ہے ، جس میں ردیف اور کافیہ یکساں ہوتا ہے۔۔۔
بہت کم ہوتا ہے کہ کچھ غزلوں میں ردیف نیہں ہوتا ایسی غزلوں کو "غیر مردف" کہا جاتا ہے ۔
تو دوستو میں نے کوشش کی ہے کہ آسان اور سلیس اردو میں بیان کرسکوں تاکہ یہ شکوہ خود مجھے نا رہے کہ جو میں نے لکھا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔۔ بہرحال میرا مشورہ ہےکہ نئے شعرا خواتین اور حضرات کو مندرجہ بالا چیزوں کا خیال رکھنا چا ہئیے اس سے وہ اپنی شاعری میں چار چاند لگا سکتے ہیں اور کلاسیکل غزل کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ یہ مضمون اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو محض ایک لشکری زبان نہیں ہے اس کی اپنی خوبصورتی اس کی گرامر پر اور اصول و ضوابط پر قائم ہے۔ یہ زبان اپنی اندربذات خود ایک جامع اور مکمل درسگاہ ہے۔
آیئے فروغ اردو کی طرف ایک قدم اور بڑہائیں
یونس رضا