غزل - غموں کی زندگی باقی نہیں ہے - ناصر کرنولی

عندلیب

محفلین
غزل
ناصر کرنولی

غموں کی زندگی باقی نہیں ہے
مگر دل میں خوشی باقی نہیں ہے

اُجالوں میں ہیں تابندہ اندھیرے
حقیقی روشنی باقی نہیں ہے

عفو و دَرگزر شیوہ ہے اپنا
کسی سے دشمنی باقی نہیں ہے

قرینِ مصلحت خود داریاں ہیں
اَنا کی سرکشی باقی نہیں ہے

کرے گا کون زخموں کا مداوا
کہیں چارہ گری باقی نہیں ہے

مسلسل خوف و دہشت ہے مقدر
سکونِ زندگی باقی نہیں ہے

کہاں گم ہو گئی تہذیبِ رفتہ
حیا شائستگی باقی نہیں ہے

نمودِ بندگی روشن ہے ہر سو
خلوصِ بندگی باقی نہیں ہے

حقائق ہیج مفروضوں کے آگے
وقارِ منصفی باقی نہیں ہے

وجودِ آدمی باقی ہے ناصر
ضمیر آدمی باقی نہیں ہے
 
Top