نظر لکھنوی غزل: قدم ڈگمگائے خیالات بھٹکے٭ نظرؔ لکھنوی

دادا مرحوم کی ایک اور غزل احباب کے ذوق کی نذر:

قدم ڈگمگائے خیالات بھٹکے
تصور سے تیرے رہا دل جو ہٹ کے

بری بات جینا تھا موقف سے ہٹ کے
بُرا کیا ہوا جو سرِ دار لٹکے

مجھے منتقل کر کے شہرِ خموشاں
نہ پھر حال پوچھا کسی نے پلٹ کے

جسے وسعتِ دو جہاں بھی نہیں کچھ
مرے دل میں کیسا سمایا سمٹ کے

مرا کوئی مونس شبِ غم میں تھا کب
بجز دل میں روتا بھی کس سے لپٹ کے

مرا دل دکھا مت ستمگر مبادا
ترا بھی نظرؔ سے کوئی کام اٹکے

محمد عبدالحمید صدیقی نظر لکھنوی​
 
بہت شکریہ ادب دوست بھائی۔
پسند فرمانے پر ممنون ہوں اسامہ بھائی۔
شکریہ توصیف بھائی۔
بہت شکریہ یوسف بھائی۔
 
بہت شکریہ محترم۔
بہت خوب ۔واہ ۔تابش ۔ بہت اچھے​
شکریہ محبت کا، عاطف بھائی۔
پسند فرمانے پر ممنون ہوں۔
 
Top