محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کی ایک اور غزل احباب کے ذوق کی نذر:
قدم ڈگمگائے خیالات بھٹکے
تصور سے تیرے رہا دل جو ہٹ کے
بری بات جینا تھا موقف سے ہٹ کے
بُرا کیا ہوا جو سرِ دار لٹکے
مجھے منتقل کر کے شہرِ خموشاں
نہ پھر حال پوچھا کسی نے پلٹ کے
جسے وسعتِ دو جہاں بھی نہیں کچھ
مرے دل میں کیسا سمایا سمٹ کے
مرا کوئی مونس شبِ غم میں تھا کب
بجز دل میں روتا بھی کس سے لپٹ کے
مرا دل دکھا مت ستمگر مبادا
ترا بھی نظرؔ سے کوئی کام اٹکے
محمد عبدالحمید صدیقی نظر لکھنوی
تصور سے تیرے رہا دل جو ہٹ کے
بری بات جینا تھا موقف سے ہٹ کے
بُرا کیا ہوا جو سرِ دار لٹکے
مجھے منتقل کر کے شہرِ خموشاں
نہ پھر حال پوچھا کسی نے پلٹ کے
جسے وسعتِ دو جہاں بھی نہیں کچھ
مرے دل میں کیسا سمایا سمٹ کے
مرا کوئی مونس شبِ غم میں تھا کب
بجز دل میں روتا بھی کس سے لپٹ کے
مرا دل دکھا مت ستمگر مبادا
ترا بھی نظرؔ سے کوئی کام اٹکے
محمد عبدالحمید صدیقی نظر لکھنوی