غزل: قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو ۔ از : میاں داد خان سیاح ؔ

مہ جبین

محفلین
ارے آپ کو معذرت یا شرمندگی کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں پڑھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ نے بے دھیانی میں ہی لکھا ہے تبھی ہم نے بھی جواب میں مذاحیہ رنگ اختیار کیا۔ :)
دلاور فگار کو بھی شاید کسی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو گا کہ انھیں یہ لکھنا پڑا کہ
جلدی میں منہ سے لفظ جمالو نکل گیا​
کہنا یہ چاہتا تھا کہ تم مہ جمال ہو​
بہت شکریہ فاتح بھائی
اگر آپ مجھے احساس نہ دلاتے تو مجھے تو پتہ ہی نہ چلتا کہ میں کیا غلطی کر چکی ہوں :) خوش رہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فاتح بھائی غزل بھی پہلی بار ہی پڑھی ہے۔ اور خالق کے نام سے بھی آج ہی آشنائی ہوئی ہے۔
بہت بہت شکریہ کہ آپ کے توسط سے اسقدر عمدہ اور نایاب شاعری پڑھنے کو ملی۔

پس نوشت: فاتح بھائی یہ میں اپنے بلاگ پر بھی لگا لوں؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی غزل بھی پہلی بار ہی پڑھی ہے۔ اور خالق کے نام سے بھی آج ہی آشنائی ہوئی ہے۔
بہت بہت شکریہ کہ آپ کے توسط سے اسقدر عمدہ اور نایاب شاعری پڑھنے کو ملی۔

پس نوشت: فاتح بھائی یہ میں اپنے بلاگ پر بھی لگا لوں؟ :)
بڑی محبت ہے بھائی۔۔۔ جہاں جی چاہے لگائیے جناب۔۔۔ اس میں اجازت کیسی
 
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

جاں بلب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا
لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو

لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا
مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو

ٹھہرو! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو

منع کیوں کرتے ہو عشقِ بُتِ شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو

ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو

شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو

ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو

سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے تُرک
پڑ گئے ہیں تری شمشیر میں دندانے دو

ہمدمو دیکھو، الجھتی ہے طبیعت ہر بار
پھر یہ کہتے ہیں کہ مرتا ہے تو مر جانے دو

حشر میں پیشِ خدا فیصلہ اس کا ہو گا
زندگی میں مجھے اس گیر کو ترسانے دو

گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی
غم نہیں ہے مجھے غمّاز کو بھڑکانے دو

جوشِ بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو
دامنِ کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو

واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو

رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاحؔ
مانو کہنے کو مرے دُور کرو جانے دو
 
Top