خورشید رضوی غزل : مئے پنہاں کبھی پیمانے سے باہر بھی دمک - خورشید رضوی

غزل
مئے پنہاں کبھی پیمانے سے باہر بھی دمک
اے غمِ دل! کبھی آنکھوں میں بھی ایک آدھ جھلک

دل میں اک خوابِ حسیں، ذہن میں اندوہِ معاش
اور دروازے پہ ایّام کی پیہم دستک

زنگ آلود سلاسل کہ جو بج بھی نہ سکیں
پاؤں میں کہنہ زمیں، سر پہ یہ فرسودہ فلک

فن ہے وہ آہوئے وحشی کہ لیے پھرتا ہے
سرِ صحرائے فنا،خلد کے باغوں کی مہک

ہے کوئی شئے مِرے اعماق کے اندر روشن
جس طرح حُجرۂِ تاریک میں سونے کی ڈلک

سحر ایسا کہ مسخر کرے گویائی کو
حُسن ایسا کہ پلک سے نہیں لگتی ہے پلک

بجھتی آنکھوں میں اک اُمِید ابھی کہتی ہے
ڈوبتے دل سے کہ دو چار گھڑی اور دھڑک

ہے تہِ دل میں کہیں ریزۂِ الماس ابھی
چشمِ گریاں سے کہو اور چھلک اور چھلک

لب تو خورشید سے کھولے نہ گئے وقتِ وداع
نبض میں رہ گئی جاتے ہوئے قدموں کی دھمک

خورشید رضوی​
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا عمدہ غزل ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے۔ اور تخلص کو کس خوبصورت انداز سے برتا ہے، واللہ!
 
Top