محمد وارث
لائبریرین
مانندِ گل ہیں میرے جگر میں چراغِ داغ
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ
مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چُھپا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ
دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ
تاریکیٔ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ
مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا
رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ
(فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی)
پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ
مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چُھپا نہ ہو
میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ
دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ
تاریکیٔ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ
مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا
رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ
(فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی)