فرحان محمد خان
محفلین
ایک کاوش احباب کی بصارتوں کی نذر
غزل
مت ناچ سر پہ دیکھ کے تاج اختیار کا
رہتا نہیں سدا کبھی موسم بہار کا
یارو کوئی علاج دلِ بے قرار کا
فتنہ ازل سے ہے اسی مشتِ غبار کا
بھاتی نہیں ہیں آنکھ کو دنیا کی رونقیں
قائل نہیں ہوں ظاہری نقش و نگار کا
ہو منحرف نہ کیوں کوئی اجر و ثواب سے
مُلّا سا نامہ بر ہو جو پروردگار کا
کیوں مجھ کو میرا شعر سناتے ہی رو پڑا؟
کیا خوں ہوا ہے تیرے کہیں اعتبار کا ؟
خاکی بدن کو بھوک کی لعنت نے کھا لیا
عقل و شعور کھا گیا غم روزگار کا
جا پوچھ اس سے فلسفۂ زندگی میاں
مانگا ہوا ہے جس نے کفن تک ادھار کا
ممکن نہیں علاج ہو اس کے مریض کا
ہائے یہ نامراد مرض انتظار کا
مت ناچ سر پہ دیکھ کے تاج اختیار کا
رہتا نہیں سدا کبھی موسم بہار کا
یارو کوئی علاج دلِ بے قرار کا
فتنہ ازل سے ہے اسی مشتِ غبار کا
بھاتی نہیں ہیں آنکھ کو دنیا کی رونقیں
قائل نہیں ہوں ظاہری نقش و نگار کا
ہو منحرف نہ کیوں کوئی اجر و ثواب سے
مُلّا سا نامہ بر ہو جو پروردگار کا
کیوں مجھ کو میرا شعر سناتے ہی رو پڑا؟
کیا خوں ہوا ہے تیرے کہیں اعتبار کا ؟
خاکی بدن کو بھوک کی لعنت نے کھا لیا
عقل و شعور کھا گیا غم روزگار کا
جا پوچھ اس سے فلسفۂ زندگی میاں
مانگا ہوا ہے جس نے کفن تک ادھار کا
ممکن نہیں علاج ہو اس کے مریض کا
ہائے یہ نامراد مرض انتظار کا
فرحان محمد خان