فرحان محمد خان
محفلین
غزل
مثالِ کوفۂ نامہربان کھینچتا ہے
بدن بھی روح پہ جیسے کمان کھینچتا ہے
نواحِ جاں میں کوئی ہُوک رقص کرتی پھرے
عجیب نغمۂ بے ساز تان کھینچتا ہے
سوادِ عمر ترا لمس رائگاں تو نہیں
تو کیوں زمیں پہ مجھے آسمان کھینچتا ہے
کسے دماغ کے جنگل نے سر اُٹھانا ہے
ابھی تو سبزۂ وحشت اُٹھان کھینچتا ہے
ترا خیال مجھے کھینچتا ہے یوں شب بھر
کہ جیسے خلق سے کوئی زبان کھینچتا ہے
یہ میرے کن کے لیے ہے یہ میرے کن سے ہے
یہ کائنات بھلا کیوں زمان کھینچتا ہے
مجھے تو ریل کی پٹری کا رزق ہونا ہے
یہ مجھ میں کون ہے جو دھیان کھینچتا ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے غزالِ رم ایجاد
یہ کیا ملال مجھے میری جان کھینچتا ہے
ہوں خود سراب گہہِ رائگانی محمودؔ
نشان پر کوئی جیسے نشان کھینچتا ہے
مثالِ کوفۂ نامہربان کھینچتا ہے
بدن بھی روح پہ جیسے کمان کھینچتا ہے
نواحِ جاں میں کوئی ہُوک رقص کرتی پھرے
عجیب نغمۂ بے ساز تان کھینچتا ہے
سوادِ عمر ترا لمس رائگاں تو نہیں
تو کیوں زمیں پہ مجھے آسمان کھینچتا ہے
کسے دماغ کے جنگل نے سر اُٹھانا ہے
ابھی تو سبزۂ وحشت اُٹھان کھینچتا ہے
ترا خیال مجھے کھینچتا ہے یوں شب بھر
کہ جیسے خلق سے کوئی زبان کھینچتا ہے
یہ میرے کن کے لیے ہے یہ میرے کن سے ہے
یہ کائنات بھلا کیوں زمان کھینچتا ہے
مجھے تو ریل کی پٹری کا رزق ہونا ہے
یہ مجھ میں کون ہے جو دھیان کھینچتا ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے غزالِ رم ایجاد
یہ کیا ملال مجھے میری جان کھینچتا ہے
ہوں خود سراب گہہِ رائگانی محمودؔ
نشان پر کوئی جیسے نشان کھینچتا ہے
م۔م۔مغل