محمد تابش صدیقی
منتظم
ویسے تو یہ غزل اصلاح ِ سخن میں پوسٹ کر چکا ہوں۔ مگر اب جبکہ ابن رضا بھائی اور استادِ محترم الف عین صاحب کی مہربانی سے درست ہو چکی ہے، تو سوچا کہ یہاں بھی ٹانک دیتا ہوں۔
احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر میری پہلی خالص کاوش:
احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر میری پہلی خالص کاوش:
مثلِ روشن سحر نکھرتے ہیں
عشق کی راہ میں جو مرتے ہیں
یاد اس کی سمیٹ لیتی ہے
جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
دوستوں کو فریب دے کر ہم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں
جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
دُور سے سچ کے ہم گزرتے ہیں
پیرویِ نبیؐ تو عنقا ہے
ہم محبت کا دم ہی بھرتے ہیں
ہے یہ احساں اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو ہم سنورتے ہیں
عشق کی راہ میں جو مرتے ہیں
یاد اس کی سمیٹ لیتی ہے
جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
دوستوں کو فریب دے کر ہم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں
جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
دُور سے سچ کے ہم گزرتے ہیں
پیرویِ نبیؐ تو عنقا ہے
ہم محبت کا دم ہی بھرتے ہیں
ہے یہ احساں اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو ہم سنورتے ہیں