غزل - ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے - سید سبطِ علی صبا

محمد وارث

لائبریرین
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے

میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے

لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے

ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچّے چھپا لیے

(سید سبطِ علی صبا)
 

فاتح

لائبریرین
انتہائی خوبصورت غزل شیئر کرنے پر آپ کا ہت شکریہ!
اس غزل کا یہ شعر تو شاید ہی کسی نے نہ سنا ہو گا لیکن مجھ سمیت اکثر نے یہ غزل بہ سنی تھی۔

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب۔

آپ نے بجا کہا، یہ شعر میں نے بھی سن رکھا تھا لیکن نہ اس کے خالق کا علم تھا اور نہ ہی یہ غزل کبھی پڑھی تھی بس ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے سامنے آ گئی۔ سبطِ علی صبا کی ایک اور غزل پوسٹ کرونگا انشاءاللہ۔
 
Top