محمداحمد
لائبریرین
غزل
میں تو گریز پا تھا
دل نے تجھے چُنا تھا
خود ہی سے ہر گِلہ تھا
تجھ سے نہ کچھ کہا تھا
میں نے جو خط لکھا تھا
راہوں میں کھو گیا تھا
کانٹے سے چُبھ رہے تھے
میں پُھول چُن رہا تھا
میں مَر گیا تھا شاید
اعلان ہو رہا تھا
کوئل چلی گئی جب
تب پیڑ جَل گیا تھا
دِل کو سنبھالنے میں
میں ٹوٹنے لگا تھا
آندھی چَڑھی ہوئی تھی
ٹُوٹا ہوا دیا تھا
پتھرا گئی تھیں آنکھیں
اِک انتظار سا تھا
میں ہنس رہا تھا سُن کر
میرا ہی ماجرا تھا
آواز کیسے آتی
میں کب کا جا چکا تھا
اک نام تھا کسی کا
لکھ کر مٹا دیا تھا
اک ہم نوا تھا دل ہی
اور وہ بھی بے نوا تھا
تم نے اُسے سُنا، کل
احمدؔ غزل سرا تھا
محمد احمدؔ
میں تو گریز پا تھا
دل نے تجھے چُنا تھا
خود ہی سے ہر گِلہ تھا
تجھ سے نہ کچھ کہا تھا
میں نے جو خط لکھا تھا
راہوں میں کھو گیا تھا
کانٹے سے چُبھ رہے تھے
میں پُھول چُن رہا تھا
میں مَر گیا تھا شاید
اعلان ہو رہا تھا
کوئل چلی گئی جب
تب پیڑ جَل گیا تھا
دِل کو سنبھالنے میں
میں ٹوٹنے لگا تھا
آندھی چَڑھی ہوئی تھی
ٹُوٹا ہوا دیا تھا
پتھرا گئی تھیں آنکھیں
اِک انتظار سا تھا
میں ہنس رہا تھا سُن کر
میرا ہی ماجرا تھا
آواز کیسے آتی
میں کب کا جا چکا تھا
اک نام تھا کسی کا
لکھ کر مٹا دیا تھا
اک ہم نوا تھا دل ہی
اور وہ بھی بے نوا تھا
تم نے اُسے سُنا، کل
احمدؔ غزل سرا تھا
محمد احمدؔ