محمد تابش صدیقی
منتظم
میں حقائق میں گرفتار ہوں، وہموں میں نہیں
کوئی نغمہ مری زنجیر کی کڑیوں میں نہیں
ٹخنوں ٹخنوں میں پتاور میں کھڑا سوچتا ہوں
جتنے پتّے ہیں یہاں، اُتنے درختوں میں نہیں
شہر والو! یہ گھروندے ہیں، یہ گلیاں ہیں، یہ کھیت
گاؤں والوں کی جو پوچھو تو وہ گاؤں میں نہیں
غیر محسوس بہاروں کا وہ دَور آیا ہے
رنگ غنچوں میں نہیں، نگہتیں پھوُلوں میں نہیں
میں جو روؤں، کوئی ہوتا نہیں ہنسنے والا
جو سکوں دشت میں دیکھا ہے، وہ شہروں میں نہیں
گرد کیسی، کہ کوئی قافلہ آیا نہ گیا
نقشِ پا کیسے، کوئی گونج بھی رستوں میں نہیں
اس زمانے کے جو دُکھ ہیں، وہ نرالے دُکھ ہیں
کچھ علاج ان کا، بزرگوں کی بیاضوں میں نہیں
صرف دہقان کے خرمن کو بھلا کیوں تاکے
برق حالات میں ہوتی ہے، گھٹاؤں میں نہیں
پَل گزُرتا ہے کہ جل جاتا ہے اِک سیّارہ
وقت کا راز جو لمحوں میں ہے، صدیوں میں نہیں
رہنماؤں سے بس اِتنا سا گلِہ ہے مُجھ کو
ان کے ہونٹوں پہ جو باتیں ہیں، وہ ذہنوں میں نہیں
پاؤں مٹی نے وہ پکڑے ہیں کہ ہلنا ہے محال
اب کوئی لطف خیالوں کی اُڑانوں میں نہیں
شعر میں بات چھُپانے کی روِش ترک کرو
اب تو افلاک کے اسرار بھی پردوں میں نہیں
٭٭٭
احمد ندیم قاسمی
کوئی نغمہ مری زنجیر کی کڑیوں میں نہیں
ٹخنوں ٹخنوں میں پتاور میں کھڑا سوچتا ہوں
جتنے پتّے ہیں یہاں، اُتنے درختوں میں نہیں
شہر والو! یہ گھروندے ہیں، یہ گلیاں ہیں، یہ کھیت
گاؤں والوں کی جو پوچھو تو وہ گاؤں میں نہیں
غیر محسوس بہاروں کا وہ دَور آیا ہے
رنگ غنچوں میں نہیں، نگہتیں پھوُلوں میں نہیں
میں جو روؤں، کوئی ہوتا نہیں ہنسنے والا
جو سکوں دشت میں دیکھا ہے، وہ شہروں میں نہیں
گرد کیسی، کہ کوئی قافلہ آیا نہ گیا
نقشِ پا کیسے، کوئی گونج بھی رستوں میں نہیں
اس زمانے کے جو دُکھ ہیں، وہ نرالے دُکھ ہیں
کچھ علاج ان کا، بزرگوں کی بیاضوں میں نہیں
صرف دہقان کے خرمن کو بھلا کیوں تاکے
برق حالات میں ہوتی ہے، گھٹاؤں میں نہیں
پَل گزُرتا ہے کہ جل جاتا ہے اِک سیّارہ
وقت کا راز جو لمحوں میں ہے، صدیوں میں نہیں
رہنماؤں سے بس اِتنا سا گلِہ ہے مُجھ کو
ان کے ہونٹوں پہ جو باتیں ہیں، وہ ذہنوں میں نہیں
پاؤں مٹی نے وہ پکڑے ہیں کہ ہلنا ہے محال
اب کوئی لطف خیالوں کی اُڑانوں میں نہیں
شعر میں بات چھُپانے کی روِش ترک کرو
اب تو افلاک کے اسرار بھی پردوں میں نہیں
٭٭٭
احمد ندیم قاسمی