مغزل
محفلین
غزل
جلاکرہم نے اِس دل کو اگرچہ راکھ کر ڈالا
مگر اندر ہی اندر اس کسک نے خاک کر ڈالا
یہ ٹھانی تھی کہ ہر قیمت پہ اس کو بھول جانا ہے
سو ! خودکو رفتہ رفتہ اس ہنر میں طاق کر ڈالا
کہیں پھر سے تمھاری آرزو دل میں نہ بس جائے
ہمیں اے دوست اس ڈر نے بہت سفّاک کرڈالا
اچانک پھر کسی کی یاد بن کر شاعری برسی
کسی آوازنے آنکھوں کو پھر نمناک کر ڈالا
غزل یہ دل اسے آخر بھُلا ہی کیوں نہیں دیتا
وہ جس کی یاد میں دل نے گریباں چاک کر ڈالا
ناز غزل