یاسر شاہ
محفلین
السلام علیکم تابش بھائی !
کیسے ہیں آپ ؟ سوچا ہے رسمی داد کے علاوہ دو ایک ہفتے میں ایک بار ، اشعار پہ کچھ بیلاگ لکھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے-شروع آپ سے کرتا ہوں کہ آپ میری حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے -
نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے
<نہیں ہے کوئی حقیقت> زاید از ضرورت محسوس ہوتا ہے -چار مرلے پلاٹ پر گھر بنایا، ایک مرلے کی زمین پر ورزش کا سامان لا کے رکھ دیا گیا -اب بال بچے تنگ ہوتے ہیں -اللہ الله خیر سلا -
پھر شعر فہمی کی طرف آئیں تو آپ کہنا چاہتے ہیں کہ الفت کی منزل کی رہنما علامات ایک طرح کا دھوکہ ہیں- منزل قریب معلوم ہوتی ہے مگر آگے بڑھنے سے دور ہوتی جاتی ہے - آگے اس کو خواب سے تعبیر کر کے بتایا یہ ہے کہ اگر منزل مل بھی جائے تو بیداری کے بعد حاصل کچھ نہیں -مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا یہ تجربہ مجازی ہے کہ حقیقی -مگر جس قدر میں آپ کو جانتا ہوں یہی گمان ہوتا ہے کہ آپ کی مراد یہاں مجازی الفت ہی رہی ہوگی-
دیکھیے مولانا تقی عثمانی صاحب کا شعر کس قدر خوش اعتمادی لیے ہوئے ہے راہ الفت کے متعلق :
قدم ہیں راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے
<جائے ہے> لگتا تو خوب ہے لیکن اپنے ماحول اور فضا میں -یعنی اگر پوری غزل کلاسیکی اردو میں ہو تو خوب لگے -مجھے تو یوں پسند ہے :
طویل ہوتی چلی جاتی ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے
فارسی کا ایک شعر ہے:
اگرچہ وعدہٰ خوباں وفا نمی داند
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرد
جس کا موزوں اردو ترجمہ یوں ہوگا :
اگرچہ وعدہٰ خوباں وفا نہیں ہوتا
خوشا حیات کہ جو انتظار میں گزرے
ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے
واہ،کیا خوب -گو پرانا خیال ہے -مگر کلیم الدین احمد مرحوم کی شعر کی تعریف پہ پورا اترتا ہے یعنی شعر کیا ہے ؟ذاتی یا خیالی تجربہ -شاعر جو پوری غزل میں لگا لپٹا چلا آرہا ہے یہاں آکر بے ساختہ سا ہو کر رہ گیا ہے اور اس کیفیت کو قاری بھی محسوس کر تا ہے -
سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے
مزہ نہیں آیا -
وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے
<کی بابت > بھرتی محسوس ہوا اور کھٹک بھی رہا ہے -ایک شکل یہ دیکھیں :
وہ مل کے پوچھ رہا ہے رقیب کا ہم سے
یہ وہ سوال ہے جو خود جواب جیسا ہے
لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے
متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے
یہ دونوں اشعارنیک خیالات پر مبنی خوبصورت الفاظ کا مجموعہ ہیں -یعنی منزل گلاب ہے تو کیوں اور جادہ گلاب جیسا کیوں -اور حباب کا کیا جوڑ باقی کے خیال سے -یہ سارے رابطے منقطع ہیں -چھوٹی بحروں میں بھی بڑا شاعر یہ رابطے منقطع ہونے نہیں دیتا مَثَلاً :
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
حباب کا سراب سے ربط یوں ہے کہ سراب دراصل دریا کا دھوکا ہے جو صحرا میں چلنے والوں کو دور نظر آتا ہے اور حباب یعنی بلبلا جو دریا میں ابھرتا ہے - گویا ہستی/نمائش اور حباب/سراب سب میں ایک بالترتیب ربط موجود ہے جزو و کل کا- پھر حباب و سراب میں دھوکے کا ربط نکال کر شاعرانہ مکر سے اس ربط کو ہستی و نمائش پہ لاگو کیا گیا ہے ریاضی کے تھیورم کی طرز پر کہ اگر الف برابر ہے جیم کے اور جیم برابر ہے دال کے تو الف دال برابر ہوئے گویا گھر کی مرغی دال برابر-
ڈسکلیمر :جو کچھ لکھا ہے اپنی ناقص سمجھ کے مطابق لکھا ہے اور میرا لکھا سند نہیں ہے -
کیسے ہیں آپ ؟ سوچا ہے رسمی داد کے علاوہ دو ایک ہفتے میں ایک بار ، اشعار پہ کچھ بیلاگ لکھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے-شروع آپ سے کرتا ہوں کہ آپ میری حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے -
نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے
<نہیں ہے کوئی حقیقت> زاید از ضرورت محسوس ہوتا ہے -چار مرلے پلاٹ پر گھر بنایا، ایک مرلے کی زمین پر ورزش کا سامان لا کے رکھ دیا گیا -اب بال بچے تنگ ہوتے ہیں -اللہ الله خیر سلا -
پھر شعر فہمی کی طرف آئیں تو آپ کہنا چاہتے ہیں کہ الفت کی منزل کی رہنما علامات ایک طرح کا دھوکہ ہیں- منزل قریب معلوم ہوتی ہے مگر آگے بڑھنے سے دور ہوتی جاتی ہے - آگے اس کو خواب سے تعبیر کر کے بتایا یہ ہے کہ اگر منزل مل بھی جائے تو بیداری کے بعد حاصل کچھ نہیں -مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا یہ تجربہ مجازی ہے کہ حقیقی -مگر جس قدر میں آپ کو جانتا ہوں یہی گمان ہوتا ہے کہ آپ کی مراد یہاں مجازی الفت ہی رہی ہوگی-
دیکھیے مولانا تقی عثمانی صاحب کا شعر کس قدر خوش اعتمادی لیے ہوئے ہے راہ الفت کے متعلق :
قدم ہیں راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے
<جائے ہے> لگتا تو خوب ہے لیکن اپنے ماحول اور فضا میں -یعنی اگر پوری غزل کلاسیکی اردو میں ہو تو خوب لگے -مجھے تو یوں پسند ہے :
طویل ہوتی چلی جاتی ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے
فارسی کا ایک شعر ہے:
اگرچہ وعدہٰ خوباں وفا نمی داند
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرد
جس کا موزوں اردو ترجمہ یوں ہوگا :
اگرچہ وعدہٰ خوباں وفا نہیں ہوتا
خوشا حیات کہ جو انتظار میں گزرے
ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے
واہ،کیا خوب -گو پرانا خیال ہے -مگر کلیم الدین احمد مرحوم کی شعر کی تعریف پہ پورا اترتا ہے یعنی شعر کیا ہے ؟ذاتی یا خیالی تجربہ -شاعر جو پوری غزل میں لگا لپٹا چلا آرہا ہے یہاں آکر بے ساختہ سا ہو کر رہ گیا ہے اور اس کیفیت کو قاری بھی محسوس کر تا ہے -
سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے
مزہ نہیں آیا -
وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے
<کی بابت > بھرتی محسوس ہوا اور کھٹک بھی رہا ہے -ایک شکل یہ دیکھیں :
وہ مل کے پوچھ رہا ہے رقیب کا ہم سے
یہ وہ سوال ہے جو خود جواب جیسا ہے
لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے
متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے
یہ دونوں اشعارنیک خیالات پر مبنی خوبصورت الفاظ کا مجموعہ ہیں -یعنی منزل گلاب ہے تو کیوں اور جادہ گلاب جیسا کیوں -اور حباب کا کیا جوڑ باقی کے خیال سے -یہ سارے رابطے منقطع ہیں -چھوٹی بحروں میں بھی بڑا شاعر یہ رابطے منقطع ہونے نہیں دیتا مَثَلاً :
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
حباب کا سراب سے ربط یوں ہے کہ سراب دراصل دریا کا دھوکا ہے جو صحرا میں چلنے والوں کو دور نظر آتا ہے اور حباب یعنی بلبلا جو دریا میں ابھرتا ہے - گویا ہستی/نمائش اور حباب/سراب سب میں ایک بالترتیب ربط موجود ہے جزو و کل کا- پھر حباب و سراب میں دھوکے کا ربط نکال کر شاعرانہ مکر سے اس ربط کو ہستی و نمائش پہ لاگو کیا گیا ہے ریاضی کے تھیورم کی طرز پر کہ اگر الف برابر ہے جیم کے اور جیم برابر ہے دال کے تو الف دال برابر ہوئے گویا گھر کی مرغی دال برابر-
ڈسکلیمر :جو کچھ لکھا ہے اپنی ناقص سمجھ کے مطابق لکھا ہے اور میرا لکھا سند نہیں ہے -