غزل: نفرتوں کی ہوا

نفرتوں کی ہوا یہ تمہیں کیا پتہ
یہ محبت ہے کیا یہ تمہیں کیا پتہ

بات دل کی زباں پر نہ آئی کبھی
مجھ کو کہنا تھا کیا یہ تمہیں کیا پتہ

بھیس میں دوستوں کےتھے دشمن چھپے
ایسا کیوں کر ہوا یہ تمہیں کیا پتہ

وہ جلا کر مجھے دیکھتا رہ گیا
اس کو کیا کچھ ملا یہ تمہیں کیا پتہ

بے اثر تھی دوائیں مسیحا تری
میں تڑپتا رہا یہ تمہیں کیا پتہ

الفتوں کے شجر کٹ گئے سب کے سب
گھر ہے کیوں دشت سا یہ تمہیں کیا پتہ

کیسے خیرات اس زندگی کی ملی
ظلم کتنا ہوا یہ تمہیں کیا پتہ

رات رخصت ہوئی روشنی کے لیے
کس کو جلنا پڑا یہ تمہیں کیا پتہ

 
آخری تدوین:
Top