آج کا دن بھی کٹ گیا آخر
جنابِ الف عین کے مزاج میں جو نرمی ہے، وہ میرے نصیب میں بھی ہو جائے تو کیا کہنے۔ مطلعے پر میں مطمئن نہیں ہوں۔ غزل کا اولین تعارف مطلع ہوتا ہے اس کو جتنا قوی بنا سکیں بنائیں۔
بجا استادِ محترم!
آج کا دن بھی کٹ گیا آخر
اور میں گھر پلٹ گیا آخر
اس سے آگے تو طائرِ تخیل کے پر جلتے ہیں۔ آپ کی صلاح کا منتظر ہوں۔
رات میں سب ستم شعاروں کے
نام و اکرام رٹ گیا آخر
یہ مَیں ہے یا میں ہے؟ دوسرے اس میں ردیف کچھ کٹی ہوئی لگتی ہے۔ ایک منٹ کے لئے اس کو ہٹا دیں تو بھی شعر کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ردیف اختیاری چیز ہے (بلکہ میں تو اس کو قافیے کی توسیع کہا کرتا ہوں) تاہم جہاں آپ ردیف اختیار کرتے ہیں، اس کو نبھائیے۔ میں خود کئی بار غیر مردف کہہ دیتا ہوں کہ ڈھیلی ردیف سے ردیف کا نہ ہونا بہتر۔
''مَیں'' ہے۔ واقعی، بہت سے کام آسان کرنے کے ساتھ ساتھ ردیف پابندیاں بھی لاتی ہے۔ اس شعر کی ردیف بھی ایک المیہ ہے۔ البتہ ایک جسارت کروں گا کہ شعر کا مفہوم کچھ یوں نکل سکتا ہے: ستم شعاروں کے نام اور کارنامے اتنے زیادہ تھے کہ یاد رکھنے بہت مشکل تھے، تاہم رات میں نے اسی کام پر صرف کی اور آخرِ کار سب نام و اکرام رٹ لیے۔
آپ کی رائے کا انتظار ہے۔
اشک کوئی نہ آنکھ سے ٹپکا
رنج سے سینہ پھٹ گیا آخر
اشک کوئی ۔۔ اس کو ادا کرنے میں رکاوٹ آتی ہے نا؛ وزن پورا ہے تو کیا ہوا، خاص طور پر غزل کے شعر کی لفظیات اور اصوات کو بھی نرمی سے ادا ہونا چاہئے۔
اشک ٹپکا نہ آنکھ سے کوئی / اشک ٹپکا نہ کوئی آنکھوں سے
ان دو میں سے جسے آپ پاس کریں۔
موت آئی نہ آسماں ٹوٹا
عرصہء ہجر کٹ گیا آخر
مناسب ہے
زلف تا دیر رخ سے الجھی رہی
چاند سے ابر چھٹ گیا آخر
ایک تو تادیر رخ میں ویسی ہی رکاوٹ ہے۔ اور دوسرے یہاں تقاضا الجھتی رہی کا ہے۔ دوسرے مصرعے میں چاند کو ہٹانا بھی پڑ جائے تو کوئی ابہام پیدا نہیں ہوتا، الفاظ بچائیے اور اپنا مضمون مکمل کیجئے۔
اس کا حل نہیں نکال پایا۔ ایک بے تکی ضرور ہانکی ہے کہ:
زلف الجھتی تھی آ کے گالوں سے
یہ بکھیڑا سمٹ گیا آخر
شاید ''ادب سے فرو تر'' ہے۔
بیچ میں اب کئی فصیلیں ہیں
صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر
فصیل کے ساتھ مضبوط تر علامت شہر کی ہے بہ نسبت صحن کے۔ دوسرے مصرعے کو بھی کوشش کیجئے کہ نکھار سکیں۔
بیچ میں اب کھڑی ہیں دیوایں
صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر
کیا یوں چل سکتا ہے؟
جنسِ دل کا وفا کی منڈی میں
نرخ کچھ اور گھٹ گیا آخر
وفا کی منڈی میں تو جنسِ دل کا بھاؤ نہیں گرتا، مفادات کی منڈی ہو یا کچھ ایسی بات ہو تو اور بات ہے۔ ویسے یہ شعر غزل کی مجموعی فضا سے کسی قدر ہٹا ہوا لگتا ہے۔ ہو سکے تو اسے الگ رکھ لیجئے، کسی ہم فضا غزل میں آ جائے گا۔
''جنسِ دل کا غرض کی منڈی میں'' شاید اس طرح مفہوم بہتر ہو جائے۔
آپ کے خکم کے مطابق اس غزل سے نکال دیا جائے گا۔
جس کی شاخیں تھیں رازداں اپنی
آج وہ پیڑ کٹ گیا آخر
یہاں معنوی تقاضا "بھی" کا ہے، نہیں تو پیڑ کا کٹ جانا محض ایک بیان رہ جاتا ہے۔ رازدان کا اٹھ جانا البتہ انشائیہ عنصر پیدا کرتا ہے۔ آج اور آخر ان دونوں کی بجائے ایک کو رکھئے، شعر زیادہ چست بنے گا۔
جس کی شاخیں تھیں رازداں اپنی
وہ گھنا پیڑ کٹ گیا آخر
لاکھ کوشش کے باوجود ''بھی'' کو دوسرے مصرعے میں نہیں گھسیڑ سکا۔ البتہ مفہوم یہ نکل سکتا ہے کہ: رازداں کے اٹھ جانے کی دیرینہ تمنا تھی اور انتظار بھی تھا مبادا کہ افشائے راز ہو جائے۔ سو یہ کام ہو ہی گیا۔
آپ کیا فرماتے ہیں اس پر۔ ۔
سخت ناراض تھا جو مدت سے
آکے مجھ سے لپٹ گیا آخر
سخت کی بجائے اگر میں "یوں ہی" کی سفارش کروں؟
جیسا آپ کا حکم!
تاہم، ''بے سبب جو خفا تھا مدت سے'' پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
اُس بدن کی تھی لو شدید اتنی
کہ میں خود میں سمٹ گیا آخر
اس پر بات ہو چکی
دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر
مناسب ہے۔