محمد علم اللہ
محفلین
غزل
ضیاء الرحمان ضیاء اعظمی
نگارخانۂ مہوش ہے اور بے تابی
خمار دیدۂ پرشوق میں ہے تریاقی
نظارہ ہاے طلسم شباب کیا رنگیں
ستارہ چرخ پہ بدلے ہے رنگ عنابی
گماں سے دور یقیں سے ہوں اس قدر معمور
ستم ہوں لاکھ پہ ہوتا نہیں ہوں فریادی
نہیں ہے دولت کونین اس کے ہم پلہ
مری متاع محبت رقیب ناشادی
وہ جس سے فیض پہنچتا ہے ماہ وانجم کو
وہ جس سے نور سحر پھیلتا ہے سیمابی
اسی کے فیض تبسم سے ہے نشاط خیال
اسی کی زلف معنبر سے ذوق آفاقی
مثال اس کی ضیاؔ آب وتاب کیا دیں گے
جو آب وتاب کو بخشے ہے جوہر ذاتی
ضیاء الرحمان ضیاء اعظمی
نگارخانۂ مہوش ہے اور بے تابی
خمار دیدۂ پرشوق میں ہے تریاقی
نظارہ ہاے طلسم شباب کیا رنگیں
ستارہ چرخ پہ بدلے ہے رنگ عنابی
گماں سے دور یقیں سے ہوں اس قدر معمور
ستم ہوں لاکھ پہ ہوتا نہیں ہوں فریادی
نہیں ہے دولت کونین اس کے ہم پلہ
مری متاع محبت رقیب ناشادی
وہ جس سے فیض پہنچتا ہے ماہ وانجم کو
وہ جس سے نور سحر پھیلتا ہے سیمابی
اسی کے فیض تبسم سے ہے نشاط خیال
اسی کی زلف معنبر سے ذوق آفاقی
مثال اس کی ضیاؔ آب وتاب کیا دیں گے
جو آب وتاب کو بخشے ہے جوہر ذاتی