محمد تابش صدیقی
منتظم
نہ ظلمتِ شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے
مگر مسافر رواں دواں ہیں ہتھیلیوں پر چراغ دھر کے
حصارِ دیوار و در سے میں نے نکل کے دیکھا کہ اس جہاں میں
ستارے جب تک چمک رہے ہیں، چراغ روشن ہیں میرے گھر کے
میں دل کا جامِ شکستہ لاؤں کہ روح کی کرچیاں دکھاؤں
میں کس زباں میں تمھیں سناؤں، جو مجھ پر احساں ہیں شیشہ گر کے
نئی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی تاریخ خود لکھے گا
بس اب عجائب گھروں میں رکھ دو قدیم معیار خیر و شر کے
بہشت کی نعمتیں ابھی تک ندیمؔ کے انتظار میں ہیں
کہ اب بھی ذرے چمک رہے ہیں فلک پر آدم کی رہگزر کے
٭٭٭
احمد ندیم قاسمی
مگر مسافر رواں دواں ہیں ہتھیلیوں پر چراغ دھر کے
حصارِ دیوار و در سے میں نے نکل کے دیکھا کہ اس جہاں میں
ستارے جب تک چمک رہے ہیں، چراغ روشن ہیں میرے گھر کے
میں دل کا جامِ شکستہ لاؤں کہ روح کی کرچیاں دکھاؤں
میں کس زباں میں تمھیں سناؤں، جو مجھ پر احساں ہیں شیشہ گر کے
نئی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی تاریخ خود لکھے گا
بس اب عجائب گھروں میں رکھ دو قدیم معیار خیر و شر کے
بہشت کی نعمتیں ابھی تک ندیمؔ کے انتظار میں ہیں
کہ اب بھی ذرے چمک رہے ہیں فلک پر آدم کی رہگزر کے
٭٭٭
احمد ندیم قاسمی