محسن نقوی غزل -وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی -محسن نقوی

غزل -وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی -محسن نقوی

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی

ہر ستمگر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے
کتنی خوش فہم ہے کمبخت جوانی اپنی

روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے
چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی

تجھ سے بچھڑے ہیں تو پایا ہے بیاباں کا سکوت!
ورنہ دریاؤں سے ملتی تھی روانی اپنی!

قحطِ پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو!
کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی

دشمنوں سے ہی اب غمِ دل کا مداوا مانگیں
دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی

آج پھر چاند افق پر نہیں ابھرا محسن
آج پھر رات نہ گزرے گی سہانی اپنی

محسن نقوی​
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے!

یہ غزل استاد رئیس خان (ستار نواز) نے گائی ہے، پی ٹی وی پر کبھی سنی تھی پھر بہت تلاش کیا لیکن نہیں ملتی، شاید کوئی دوست کرم کر دے :)
 
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے!

یہ غزل استاد رئیس خان (ستار نواز) نے گائی ہے، پی ٹی وی پر کبھی سنی تھی پھر بہت تلاش کیا لیکن نہیں ملتی، شاید کوئی دوست کرم کر دے :)
میں نے بھی بیحد کوشش کی لیکن نہیں ملی کوئی مہربانی کر کے ڈھونڈ لائے.
واقعی استاد رئیس خان نے کمال گایا ہے اسے.
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے
چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی
روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول مجھے

قحطِ پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو!
کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی
اور کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی

دشمنوں سے ہی اب غمِ دل کا مداوا مانگیں
دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی
دشمنوں سے ہی غمِ دل کا مداوا مانگیں
 
Top