لاريب اخلاص

لائبریرین
غزل

پہلے اپنے آپ کو مِسمار کر
پھر نیا اک آدمی تیار کر

یہ غُرور و فخر ہے کِس بات کا
عاجزی کو طُرہٴ دستار کر

سہل انگاری کہاں تک، اُٹھ ذرا
زندگی کو اور مت دشوار کر

خوش امیدی کو بنا بانگِ جرس
آرزو کو قافلہ سالار کر

روشنی کے رنگ کا پرچم بنا
عزم کو اس کا علم بردار کر

اب تلک جو ہو چکا، سو ہو چکا
سیکھ جینا زیست کو ہموار کر

کچھ فریبی اژدہوں کا خوف ہے
تو ذرا مجھ کو عصا بردار کر

دیکھ صورت کو مِری، آنکھوں میں جھانک
کچھ تو دل داری مرے دل دار کر

ہوں سبک سر میں، سبک رفتار زیست
کچھ توقف اے کہانی کار کر

کیوں ہے احمد تو پریشاں، بات سن
بیٹھ اک گوشے میں، استغفار کر

محمد احمدؔ
ماشاءاللہ!
بہت خوب!
کیوں ہے احمد تو پریشاں، بات سن
بیٹھ اک گوشے میں، استغفار کر
واہ!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب ، اچھی غزل ہے ، احمد بھائی! کئی اچھے اشعار ہیں ۔
انداز گرچہ کچھ خطیبانہ ہے اس غزل کا لیکن پیغام کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

پہلے اپنے آپ کو مِسمار کر
پھر نیا اک آدمی تیار کر

بہت خوب ، شعر پسند آیا ، احمد بھائی ! (سنگِ برباد سے اٹھتا ہے عمارت کا خمیر )

خوش امیدی کو بنا بانگِ جرس
آرزو کو قافلہ سالار کر

بہت خوب! زندہ باد!
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ! بہت خوب ، اچھی غزل ہے ، احمد بھائی! کئی اچھے اشعار ہیں ۔
بہت شکریہ محترم بھائی!
انداز گرچہ کچھ خطیبانہ ہے اس غزل کا لیکن پیغام کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ہاہاہا۔۔۔! کبھی کبھی آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر لیکچر دیا کرتا ہوں۔ :) :) :)

پہلے اپنے آپ کو مِسمار کر
پھر نیا اک آدمی تیار کر

بہت خوب ، شعر پسند آیا ، احمد بھائی ! (سنگِ برباد سے اٹھتا ہے عمارت کا خمیر )

خوش امیدی کو بنا بانگِ جرس
آرزو کو قافلہ سالار کر

بہت خوب! زندہ باد!
بہت نوازش !

بہت حوصلہ افزائی ملی آپ کے تبصرے سے۔

بے حد ممنون ہوں۔
 
Top