غزل: چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم ٭ والی آسی

چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم
اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم

اس درجہ ہوشیار تو پہلے کبھی نہ تھے
اب کیوں قدم قدم پہ سنبھلنے لگے ہیں ہم

ہو جاتے ہیں اداس کہ جب دوپہر کے بعد
سورج پکارتا ہے کہ ڈھلنے لگے ہیں ہم

ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہوں مگر
لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم

آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہ تھی کوئی
خود جانتے تھے ہم کہ بدلنے لگے ہیں ہم

اس کا یقین آج بھلا کس کو آئے گا
اک دھیمی دھیمی آنچ میں جلنے لگے ہیں ہم

سچ پوچھیے تو اس کی ہمیں خود خبر نہیں
موسم بدل گیا کہ بدلنے لگے ہیں ہم

٭٭٭
والی آسی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم
اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم

اس درجہ ہوشیار تو پہلے کبھی نہ تھے
اب کیوں قدم قدم پہ سنبھلنے لگے ہیں ہم

ہو جاتے ہیں اداس کہ جب دوپہر کے بعد
سورج پکارتا ہے کہ ڈھلنے لگے ہیں ہم

ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہوں مگر
لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم

آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہ تھی کوئی
خود جانتے تھے ہم کہ بدلنے لگے ہیں ہم

اس کا یقین آج بھلا کس کو آئے گا
اک دھیمی دھیمی آنچ میں جلنے لگے ہیں ہم

سچ پوچھیے تو اس کی ہمیں خود خبر نہیں
موسم بدل گیا کہ بدلنے لگے ہیں ہم
خوبصورت اشعار سے آراستہ عمدہ غزل۔ بہت خوب۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس کا یقین آج بھلا کس کو آئے گا
اک دھیمی دھیمی آنچ میں جلنے لگے ہیں ہم

عمدہ کلام، شریک محفل کرنے کا شکریہ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اعلیٰ! کیا اچھے اشعار ہیں !

سچ پوچھیے تو اس کی ہمیں خود خبر نہیں
موسم بدل گیا کہ بدلنے لگے ہیں ہم
واہ!
اچھا انتخاب ہے تابش بھائی۔ پڑھوانے کے لئے بہت شکریہ ۔
 

طارق شاہ

محفلین
ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہوں مگر


ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہیں مگر
لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم
 
ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہوں مگر


ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہیں مگر
لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم
یہ ہُوں نہیں ہے۔ :)
کتاب سے عکس
Screenshot-20201127-192816-Chrome.jpg
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایسا نہیں کہ
ایک یقینی امر کا بیان ہے اس لئے
ہو
یا اسی معنٰی میں
ہوں (قیاسی کلمہ)
نہیں آسکتا
شاعری میں شاعر یقین پر زور (یا کوئی معنوی زاویہ ) دینے کے لیے بھی بسا اوقات اس کو مشکوک کرسکتا ہے ۔ یہ شاعرانہ انداز بیان کے پہلؤوں میں سے ایک انداز ہو سکتا ہے ۔ مجھے یہی لگا کہ شاعر یہاں "ہوں" دوسرے مصرع والے "ہم" ہی کے لیے لایا ہے ۔
دوسرے یہ کہ "ایسا نہیں کہ" کے ساتھ یہ "ہوں" قیاسی نہیں رہتا ۔ (ہوں کی کئی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں مثلاََ شرطیہ (جو فقرے یا مصرع کی بقیہ لفظی نشست سے طے ہو گی)
واللہ اعلم ۔یہ میری ایک رائے ہے ۔
 

طارق شاہ

محفلین
ہوسکتا ہے
پر کیا بات کی جاسکتی ہے

بہت کچھ ہوسکتا ہے

جرمِ کاتب بھی
ہوسکتا ہے

امثال سے ہی کہا جاسکتا ہے کہ شتر گربہ، یا تضاد نہیں ہے یا ایسا روا تھا اس وقت
(ہوسکتا ہے بطنِ شاعر والے محاورہ کو تقویت دینے والا کلمہ بھی ہے)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایسا نہیں کہ (ہم) برف کی مانند ہوں مگر ۔ لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم
ایسا نہیں کہ (ہم) برف کی مانند ہیں مگر ۔ لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم

قاری کے نقطۂ نظر سے مجھے تو دونوں صورتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔دونوں اشعار کا ایک ہی مطلب بنتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں پہلے مصرع کا فاعل "ہم" مستور ہے چنانچہ میری رائے میں شتر گربہ کا سوال تو نہیں اٹھنا چاہئے۔ ۔ عام بول چال میں بھی دونوں اسلوب روا ہیں ۔
ویسے اس شعر کا مجموعی تاثر ہی استعجابیہ ہے کہ جس میں قدرے ابہام کا انداز اختیار کیا گیا ہے: (ہمیں ) لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم ۔ (دنیا کو) لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم ۔ (انہیں ) لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم ۔ وغیرہ
شاعر بعض اوقات صیغوں کے استعمال میں ابہام سے کام لیتا ہے اور شاعری میں اس طرح کا مبہم اسلوب نسبتاً عام ہے ۔ مندرجہ ذیل شعر میں بھی ابہامی انداز استعمال کیا گیا ہے۔
(ہم) ہو جاتے ہیں اداس کہ جب دوپہر کے بعد
سورج پکارتا ہے کہ ڈھلنے لگے ہیں ہم
اب سوال یہ ہے کہ مصرع ثانی میں "ڈھلنے لگے ہیں ہم" کے الفاظ سورج اپنے لئے کہہ رہا ہے یا شاعر کے لئے؟! ۔ اگر شاعر کے لئے کہہ رہا ہے تو پھر "ڈھلنے لگے ہو تم" ہونا چاہئے ۔ اگر اپنے لئے کہہ رہا ہے تو پھر "ڈھلنے لگا ہوں میں" ہونا چاہئے ۔ لیکن اس ابہام کے باوجود شعر بالکل ٹھیک ہے اور اپنے معنی اور تاثر کا پورا پورا ابلاغ کرتا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
 
Top