غزل کی اصلاح مطلو ب ھے۔۔۔

استادمحترم الف عین صاحب اپنی بساط کے مطابق کچھ درست کرنے کی کوشس کی ہے ۔۔۔


ایسے ہی تو نہیں کوئ گو ہر بنا ہوں میں۔۔۔
اک عمر تک تھپیڑے ہی کھاتا رہا ہوں میں۔۔۔

اب دیکھتا ہوں کون مرا ہم سفر بنے !!
فرعونء وقت سے تو الجھ ہی پڑا ہوں میں۔۔۔

مانا کہ میں بہت ہی گنہ گار ہوں مگر ۔۔۔۔
جو آپ پارسا ہیں سبھی جانتا ہوں میں۔۔۔

عرصہ ہوا گئے تھے جہاں آپ چھوڑ کر۔۔۔
اس موڑ پر اکیلا ابھی تک کھڑا ہوں میں۔۔۔۔

اے شیخ جرم ٹھہرے مرا عشق کیوں یہاں۔۔۔
اس کے خمیر سے ہی کشیدہ گیا ہوں میں۔۔۔

ایمان کیا ھے اس کا خدا پر جو یوں کہے۔۔۔
"تخلیق ہوں کسی کی یا پھر حادثہ ہوں میں"

امید کس طرح ہو مجھے اب بہار کی۔۔
جب اپنے ہی درخت سے ٹوٹا ہوا ہوں میں۔۔

چھیڑو نہ اب فرشتو ذرا سونے دو مجھے۔۔
دنیا میں ہی حساب سبھی دے چکا ہوں میں۔۔۔

شب خون کے پیاسے بڑے خوش ہیں کس لیے۔۔۔
عابد انھیں بتاو ابھی جاگتا ہوں میں۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ، ماشاء اللہ اچھی غزل کہہ دی!! بس دو مصرعے اور دیکھ لو۔
اس کے خمیر سے ہی کشیدہ گیا ہوں میں
کشیدہ گیا ہوں درست محاورہ نہیں۔ یہاں سامنے کا ’اٹھایا گیا ہوں میں‘ لیوں نہیں استعمال کرتے؟
اور
شب خون کے پیاسے بڑے خوش ہیں کس لیے
پیاسے کی ’ی‘ خاموش ہے۔ تقطیع میں نہیں آتی۔ محض ’پاسے‘ درست ہے
 
واہ، ماشاء اللہ اچھی غزل کہہ دی!! بس دو مصرعے اور دیکھ لو۔
اس کے خمیر سے ہی کشیدہ گیا ہوں میں
کشیدہ گیا ہوں درست محاورہ نہیں۔ یہاں سامنے کا ’اٹھایا گیا ہوں میں‘ لیوں نہیں استعمال کرتے؟
اور
شب خون کے پیاسے بڑے خوش ہیں کس لیے
پیاسے کی ’ی‘ خاموش ہے۔ تقطیع میں نہیں آتی۔ محض ’پاسے‘ درست ہے
بہت بہت شکریہ سر آپ کی شفقت کی بدولت ہوئ ۔۔ شب خون کے یہ پیاسے خوش ہیں کس لیے۔۔۔ یا شب خون کے شیدائ خوش ہیں کس لیے۔۔۔
 
Top