غزل کی اصلاح مطلو ب ھے۔۔۔

محترم استاد@الف عین صاحب
محمد وارث صاحب
ریحان قریشی صاحب
،معزز اراکین اور محفلین

اندھیرے کو ضیا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
حقیقت سے جدا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

بشر ٹھہرا ہے جب پتلا خطاوں کا تو پھر خود کو
خطا سے ماورا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

مسیحائ مری جب تیرے ہاتھوں میں ہے تو پھر یوں
مرض کو لادوا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

ستم میں بھی مزے لینا علامت ہے محبت کی
محبت کو سزا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

ارے دنیا ستم سہنے کی عادت تو نہیں لیکن
کسی کو بے وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

یہاں دنیا تو اچھوں کو برا کہتی ہے لیکن
بروں کو بھی برا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

حیا دل میں نہ ہو جب تو نقابوں سے بھی کیا حاصل
نقابوں کو حیا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

عبادت واعظوں کی ہے یہاں جنت کے لالچ میں
خدا کو یوں خدا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

محبت جب نہ ہو عابد تو پھر بے کار ہیں رسمیں
دکھاوے کو وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
 
مدیر کی آخری تدوین:
محترم استاد@الف عین صاحب
محمد وارث صاحب
ریحان قریشی صاحب
،معزز اراکین اور محفلین

اندھیرے کو ضیا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
حقیقت سے جدا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

بشر ٹھہرا ہی جب پتلا خطاوں کا تو پھر خود کو
خطا سے ماورا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

مسیحائ مری جب تیرے ہاتھوں میں ہے تو پھر یوں
مرض کو لادوا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

ستم میں بھی مزے لینا علامت ہے محبت کی
محبت کو سزا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

ارے دنیا ستم سہنے کی عادت تو نہیں لیکن
کسی کو بے وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

یہاں دنیا تو اچھوں کو برا کہہ دیتی ہے لیکن
بروں کو بھی برا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

حیا دل میں نہ جب ہو تو نقابوں سے کیا حاصل
نقابوں کو حیا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

یہ ملا تو عبادت کرتے ہیں جنت کے لالچ میں
خدا کو یوں خدا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

محبت جب نہ ہو عابد تو پھر بے کار ہیں رسمیں
دکھاوے کو وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

ہماری صلاح

مندرجہ ذیل مصرعوں میں معمولی لفظی تبدیلی فرمادیجیے۔

بشر ٹھہرا ہے جب پتلا خطاؤں کا تو پھر خود کو

یہاں دنیا تو اچھوں کو برا کہتی ہے لیکن یوں

حیا دل میں نہ ہو جب تو نقابوں سے بھی کیا حاصل

عبادت واعظوں( عابدوں) کی ہے یہاں جنت کے لالچ میں
 
آخری تدوین:
ہماری صلاح

مندرجہ ذیل مصرعوں میں معمولی لفظی تبدیلی فرمادیجیے۔

بشر ٹھہرا ہے جب پتلا خطاؤں کا تو پھر خود کو

یہاں دنیا تو اچھوں کو برا کہتی ہے لیکن یوں

حیا دل میں نہ ہو جب تو نقابوں سے بھی کیا حاصل

عبادت واعظوں( عابدوں) کی ہے یہاں جنت کے لالچ میں

بہت نوازش سر درست کر دوں گا
 
محترم استاد@الف عین صاحب
محمد وارث صاحب
ریحان قریشی صاحب
،معزز اراکین اور محفلین

اندھیرے کو ضیا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
حقیقت سے جدا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

بشر ٹھہرا ہے جب پتلا خطاوں کا تو پھر خود کو
خطا سے ماورا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

مسیحائ مری جب تیرے ہاتھوں میں ہے تو پھر یوں
مرض کو لادوا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

ستم میں بھی مزے لینا علامت ہے محبت کی
محبت کو سزا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

ارے دنیا ستم سہنے کی عادت تو نہیں لیکن
کسی کو بے وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

یہاں دنیا تو اچھوں کو برا کہتی ہے لیکن
بروں کو بھی برا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

حیا دل میں نہ ہو جب تو نقابوں سے بھی کیا حاصل
نقابوں کو حیا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

عبادت واعظوں کی ہے یہاں جنت کے لالچ میں
خدا کو یوں خدا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا

محبت جب نہ ہو عابد تو پھر بے کار ہیں رسمیں
دکھاوے کو وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
ماشاءاللہ اچھی غزل کہی ہے، بہت ساری داد
 
ارے دنیا ستم سہنے کی عادت تو نہیں لیکن
کسی کو بے وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا​
دوسرا مصرعہ بہت جاندار ہے لیکن پہلا مصرعہ اس سے تال میل نہیں کھاتا۔ اگر بدل دیں تو بہتر ہوگا۔

جیسے
زمانے کا چلن جو ہو، میں اپنا ظرف رکھتا ہوں
کسی کو بے وفا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
 
آخری تدوین:
خلیل بھائی عمدہ اصلاحات دی ہیں۔ کچھ ایک دو باتیں صلاح کے زمرے میں ہماری بھی :
بشر ٹھہرا ہے جب پتلا خطاوں کا تو پھر خود کو
خطا سے ماورا کہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
بشر ہوں اور پتلا ہوں خطاؤں کا تو پھر خود کو
خطا سے ۔۔۔
مسیحائ مری جب تیرے ہاتھوں میں ہے تو پھر یوں
مصرع کی روانی بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ کچھ اور بہتر الفاظ ہوں تو رواں اور چست ہو جائے۔
ارے دنیا ستم سہنے کی عادت تو نہیں لیکن
"اری" دنیا۔۔۔ کا محل ہے۔ اس کا علاوہ یہ مصرع ثانی سے الگ ہے۔ دو لختی کا احساس ہوتا ہے۔

یہاں دنیا تو اچھوں کو برا کہتی ہے لیکن
یہاں دنیا تو اچھوں کو برا کہتی ہی ہے لیکن
یا ایسا ہی کچھ زیادہ رواں شکل ہے۔
 
Top