راشد اشرف
محفلین
غزل کے شاعر حاصل مراد آبادی سے ایک ملاقات۔31 جولائی،2014
رفقاءکار: ڈاکٹر رضوان اللہ خاں، سید معراج جامی
تصاویر منسلک ہیں
سب سے پہلے چند باتیں سید معراج جامی صاحب کی زبانی سنیے :
راشد اشرف کے قریبی عزیز ڈاکٹر رضوان اللہ خاں صاحب سے پہلی ملاقات راشد کے گھر پر ہوئی ۔ دوران گفتگو پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب ملیر کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں سے تھوڑی دوری پر حاصل مراد آبادی بھی رہتے ہیںاور ڈاکٹر صاحب کی حاصل صاحب سے ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے ۔یہ سن کر ایسا لگا کہ مجھے گوہر مراد مل گیا ہو۔ 80 سے 90ء کی دھائی تک کراچی کے تمام علاقوں میں مشاعرے ہوتے تھے جس میں ہجرت کر کے آنے والے تمام مستند ، معروف ، ممتاز شعرا کرام شرکت کرتے تھے ۔ میں نے ان سب کا دور دیکھا ، ان سے مراسم رہے ، ان کی صحبتوں سے فیض اٹھایا اور ان کے ساتھ مشاعرے پڑھے۔ 88 کے بعد کراچی کے حالات اس بُری طرح سے بدلے کہ تمام علاقے علاقہ غیر ہوتے چلے گئے اور پھر وہ تمام شعرا کرام جو خون کے سمندر سے گزر کر اور اپنا بہت کچھ لٹا کر اس آزاد ملک میں آئے تھے ، اپنوں ہی کے ہاتھوں اس طرح قید ہو گئے کہ پھر کسی کو کسی کے انتقال کی خبر نہ ملی کہ لوگ آزادنہ نقل و حمل سے مسدود ہو کر رہ گئے ۔ ڈاکٹر صاحب سے حاصل مراد آبادی صاحب کا سن کر دل شاد ہوا اور میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں ان سے ملنا چاہتاہوں ۔حاصل صاحب سے بہت صحبتیں رہیں ۔ان جیسا غیور ، شریف النفس ،صاحب علم اور تغزل کے شاعر بہت کم ہوتے ہیں ، اوپر سے نام و نمود سے بے پروا ۔ڈاکٹر صاحب بخوشی راضی ہو گئے شرط یہ تھی کہ میں ان کے ہاں آﺅں۔ کل عید کا تیسرا دن تھا ، راشد میرے گھر پر آئے ۔ جانے لگے تو میں کہا کہ راشد اب چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں کسی دن ڈاکٹر صاحب کے ہاں کا پروگرام بناﺅ ۔ قبولیت کی گھڑی تھی کہ راشد کہنے لگے کہ آج ہی چلتے ہیں ،بس فوراً اٹھے اور راشد نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دی اور ہم سب ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچے ۔پھر وہاں سے ہم تینوں حاصل صاحب کی قیام گاہ پر گئے۔ حاصل صاحب سے مل کر مجھے ذوق کے اس شعر کا جس طرح ادراک ہوا ،ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب معاملات واقعی دل و جاں سے تعلق رکھتے ہوں کہ :
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
حاصل صاحب جیسا قناعت پسند ، صابر و شاکر اور محبت و خلوص کا پیکر دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے کہ آدمیوں کے اس جنگل میں اب بھی کچھ انسان باقی ہیں اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ حاصل صاحب جیسے لوگوں کا س دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں ۔ ہم کس قدر بے حس اور خود غرض ہو گئے ہیں۔
پھر جو یادوں کا سلسلہ شروع ہوا اور جو ان پر بیتے واقعات کا پتہ چلاوہ سب راشد کی زبانی سنیے۔
٭٭٭
حاصل مراد آبادی مراد آباد ، یوپی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ 1933 کی بات ہے۔ نئے وطن ہجرت کی۔ یہ سوچ کر کہ اپنے وطن میں پاو ¿ں جمائیں گے، ترقی کریں گے۔ مگر ان کا تعلق اس نسل سے ہے جن کے خون میں خودداری اور وضع داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ لہذا ایسے معصوم ، نیک نیت اور فرشتہ صفت لوگوں کو تو دوران ہجرت ہی کٹ مرنا چاہیے تھا کہ ایک بار کا مرنا بار بار کے مرنے سے بھلا۔
مگر آپ حضرت حاصل مراد آبادی کی زبان پر کوئی شکوہ نہیں پائیں گے۔ یہ ان کی سرشت میں نہیں ہے۔ 80 برس کی عمر میں کراچی کے مضافاتی علاقے ملیر سے بس کا جان لیوا سفر، پہنچنا بہادر یاد جنگ اکادمی جہاں کے کرتا دھرتاو ں کی آنکھ میں اتنی شرم ہے کہ ایک اسی برس کے انسان کو اکادمی میں ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔ ریلوے کی ملازمت سے کب کے سبک دوش ہوئے ،یہ 1928 کی بات ہے۔ پینشن تین ہزار روپلی ملتی ہے۔ جی ہاں! تین ہزار ماہانہ۔شاید اس میں سے بچت بھی ہوجاتی ہو۔
گھر ایسا کہ ادھر داخل ہوئیے ، ادھر ختم۔ دل ایسا کہ کشادہ کہ مہمان نوازی پر ہر آن آمادہ۔ آپ یقین کریں گے کہ اگلے وقتوں کے اس وضع دار بزرگ کی باتیں سن کر ہماری آنکھیں بھیگتی ہی رہی تھیں۔ وہ باتیں جو ، وہ انداز جو اب ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ مگر ذرا ٹھہریے! یہ مت سمجھیے گا کہ یہ باتیں وہ ہیں جو حاصل صاحب اپنے کھٹن شب و روز کے بارے میں کہہ رہے ہوں۔ ہرگز نہیں۔ اس بارے میں تو ایک فقرہ بھی ان کی زبان پر آیا ہو، مجال ہے، حرام ہے۔ وہ اس مٹی کے تو بنے ہی نہیں۔ بقول ان کےع:
ضمیر بیچتے اپنا تو مقتدر ہوتے
خیال عظمت انساں ہمیں تو مار گیا
وہ جو باتیں سناتے رہے، وہ باتیں تو جگر مراد آبادی کی باتیں تھیں، دلچسپ واقعات تھے، شہر کراچی کے مشاعرے تھے جب حاصل مراد آبادی ان میں شریک ہوا کرتے تھے، پذیرائی ہوتی تھی، لوگ بچھ بچھ جاتے تھے۔ شاعر کو اور کیا چاہیے۔ ایک وہ وقت تھا جب ان کو ہر ادبی ذوق رکھنے والا شخص بخوبی جانتا تھا۔ اور ایک آج کا دور کہ جب ایک مرتبہ تاجدار عادل (پروڈیوسر)کی دعوت پر حاصل صاحب سرکاری ٹی وی پر گئے او ر جب وہ پروگرام نشر ہوا تو محلے کے لوگوں نے روک روک کر کہا،کل آپ ٹی وی پر آرہے تھے۔ حاصل صاحب نے سر جھکا کر جواب دیا:
” جی ، وہ میں نہیں تھا، میرا بھائی تھا۔“
ایک موقع پر جب حاصل صاحب نے جگر مراد آبادی سے ان کی کراچی آمد کے مزے دار قصے چھیڑے تو ہم مبہوت ہو کر سنا کیے۔ یہ وہ دور تھا جب حاصل مراد آبادی کی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ کہنے لگے ، ایک پرچہ میں نے جگر صاحب کی جانب کھسکا دیا، کہا اس پر کچھ لکھ دیجیے۔ جگر پر سکوت طاری ہوا، کچھ سوچنے لگے۔ ادھر حاصل صاحب نے کچھ کہنا چاہا، جگر بولے ”خاموش میاںمیں سوچ رہا ہوں“پھر قلم اٹھایا اور یہ قطعہ لکھ دیا جو بقول حاصل مراد آبادی، غیر مطبوعہ ہی رہا،شاید ہند میں کبھی کہیں شائع ہوا ہو۔
آپ بھی سنئیے کہ ہم تو حاصل صاحب کی زبان سے سن رہے تھے اور محظوظ ہورہے تھے:
وسعت فکر و نظر بھی نہ مجھے راس آئی
ہر تبسم پہ جراحت کا گماں ہوتا ہے
ساز و مطرب کے کرشموں پہ نہ جا کہ یہاں
اکثر اس طرح سے بھی رقص فغاں ہوتا ہے
ہم نے حاصل صاحب سے ان کے کلام کی فرمائش کی، پہلے تو وہ انکار کرتے رہے مگر پھر کچھ نہ کچھ سنایا۔
کلام شاعر بہ زبان شاعر۔
کبھی سنے تھے نہ خواب و خیال میں آئے
جو حادثے ہمیں درپیش حال میں آئے
تلاش عظمت ِرفتہ میں گم ہیں کیوں آنکھیں
یہاں تو شمس و قمر بھی زوال میں آئے
ہم اہل دل پہ ہی تہمت ہے کیوں اسیری کی
بڑے بڑے تیری زلفوں کے جال میں آئے
×٭×
کیسے اپنائیں ضمیروں کی تجارت کا اصول
سانحہ یہ ہے کہ ہم بھی اسی بازار میں ہیں
×٭×
وصال و ہجر کے موسم انہیں مبارک ہوں
جو کم نگاہ تجھے دل سے دور جانتے ہیں
×٭×
حسن کے منظر کا پس منظر سمجھنا چاہئے
پھر اسے محبوب یا دلبر سمجھنا چاہئے
آہ و زاری شیوہءاہلِ طلب ہے کس لئے
اس حقیقت کو بچشمِ تر سمجھنا چاہئے
خواہشِ تسکینِ دل حاصل یہاں بے سود ہے
زندگی کو عرصہء محشر سمجھنا چاہئے
حاصل مراد آبادی کی اہلیہ کچھ عرصہ قبل ان کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ وہ ساتھ ، وہ تعلق جو ساٹھ برس کے عرصے پر محیط تھا۔ ان کی اہلیہ ایک طویل عرصے سے معذوری کی زندگی گزار رہی تھیں مگر اس حالت میں بھی حاصل صاحب کا خیال رکھتی تھیں۔ مرحومہ کا ذکر کرتے وقت ان کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں:
” پچھلے دنوں ’میرے گھر میں سے‘ انتقا ل کرگئیں۔ ایک خلا پیدا ہوگیا۔ میں ٹوٹ کر رہ گیا، انہوں نے گھر کو کیسے سنبھالا ہوا تھا ، میں کیا عرض کروں۔“
وہ عرض نہ بھی کرتے تب بھی ان کے شکن آلود چہرے پر تو سب کچھ لکھا ہوا تھا۔ دو بیٹیاں شادی شدہ جبکہ ایک بیٹی ہے جس نے ماں کی خدمت میں دن رات ایک کیا اور اسی حالت میں اس کی شادی کی عمر نکل گئی۔ ماں چلی گئی، باپ پہلے ہی خاموش طبع تھا، اب مزید سمٹ کر رہ گیا۔ طبعاً بھی اور جسمانی طور پر بھی۔
ساٹھ گز کا کوارٹر اس شخص کا مسکن ہے جو اس قابل تھا کہ ایک اطمینان بخش زندگی گزارتا۔ ہجرت کے بعد کیسے کیسے لوگ ، کہاں جا بیٹھے ، پیسے کے حصول کی اندھی دوڑ نے معاشرے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔
کم ظرفوں کو رفعتیں نصیب ہوئیں، شریف آدمی منہ چھپاتا پھرا۔
اور ادھر حاصل مراد آبادی جیسے وضع دار لوگ ساٹھ گز کے کوارٹر سے جان توڑ محنت کے بعد بھی نکل نہ پائے۔ اور اب ؟ اب تو یہ حال ہے کہ ان کا بس چلے تو اٹواٹی کھٹواٹی (اگر اس چیز کا کوئی وجود باقی رہ گیا ہے تو) لے کر پڑے رہیں۔ کوئی بات کرنے والا نہ رہا، دوست احباب دنیا سے اٹھ گئے۔
میں پوچھتے پوچھتے رہ گیا کہ حاصل صاحب قبلہ! کیا یہی زیست کا حاصل رہا ؟
البتہ ایک حسرت ہے مگر اس حسرت کو دل میں چھپائے عرصہ پندرہ برس کا گزر چکا ہے۔ وہ یہ کہ ان کا مجموعہ کلام شائع ہوجائے۔ ہمارے میزبان ڈاکٹر رضوان اللہ خاں صاحب سے علم ہوا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں جب جب کبھی بھی حاصل صاحب سے کسی نے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بارے میں پوچھا انہوں نے یہی جواب دیا کہ جی ہاں! ہو رہا ہےہوجائے گا۔ مگر چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔
ہاں البتہ کوئی یہ کہہ دے کہ جناب لائیے، ہم شائع کرتے ہیں آپ کی کتاب تو بقول ڈاکٹر صاحب، حاصل صاحب جھٹ مسودہ نکال کر ہاتھ پر رکھ دیں گے کہ بسم اللہ۔
مگر ایسا کرے کون ؟ کس کو اتنی فرصت ہے کہ ایک اسی سالہ انسان کے لیے سوچے۔ یہی سوچتے ہوئے ہم نے حاصل صاحب سے اجازت طلب کی۔ وہ باہر تک آئے، ان کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ کو ہم سب نے تھاما جو اس قابل تھا کہ اسے چوما جائے، آنکھوں سے لگایا جائے۔
ایک شریف، انتہائی مخلص، رکھ رکھاؤ والا ، مرنج مرنجاں شخص
میرا جی کرتا تھا کہ ان سے کہوں کہ آپ کی قربانیوں کی وجہ سے میں آج آسودہ حالی کی زندگی بسر کرتا ہوں۔ زندگی کی تمام سہولتیں مجھے میسر ہیں۔ یہاں آپ جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں کی تنگ گلیوں میں میری گاڑی تک جا نہیں سکتی۔
حاصل صاحب! آپ نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا ۔ مگر ایک ہم ہیں کہ اور کچھ تو دور کی بات، آپ کی زندگی کی سب سے پرمسرت چیز یعنی آپ کی شاعری کی کتاب بھی شائع نہیں کرواسکتے۔
واپسی پر ہم سب کے دل بوجھل تھے۔ مگر کب تک ؟ وہ عید کا تیسرا روز تھا۔ایک ہنگامہ خیز ، پرمسرت اور رنگا رنگ تہوار کا تیسرا دن۔ اپنی قیام گاہ تک پہنچتے پہنچتے میرے ذہن پر اگلے روز کی مصروفیت کے خیالات قبضہ جما چکے تھے۔ اور میں حاصل مراد آبادی کو بھول چکا تھا۔
مگرکہیں ایسا تو نہیں کہ حاصل مراد آبادی کو بھلا کر کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اپنے آپ کو بھلا بیٹھا ہوں ؟
راشد اشرف۔ یکم اگست ،2014
رفقاءکار: ڈاکٹر رضوان اللہ خاں، سید معراج جامی
تصاویر منسلک ہیں
سب سے پہلے چند باتیں سید معراج جامی صاحب کی زبانی سنیے :
راشد اشرف کے قریبی عزیز ڈاکٹر رضوان اللہ خاں صاحب سے پہلی ملاقات راشد کے گھر پر ہوئی ۔ دوران گفتگو پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب ملیر کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں سے تھوڑی دوری پر حاصل مراد آبادی بھی رہتے ہیںاور ڈاکٹر صاحب کی حاصل صاحب سے ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے ۔یہ سن کر ایسا لگا کہ مجھے گوہر مراد مل گیا ہو۔ 80 سے 90ء کی دھائی تک کراچی کے تمام علاقوں میں مشاعرے ہوتے تھے جس میں ہجرت کر کے آنے والے تمام مستند ، معروف ، ممتاز شعرا کرام شرکت کرتے تھے ۔ میں نے ان سب کا دور دیکھا ، ان سے مراسم رہے ، ان کی صحبتوں سے فیض اٹھایا اور ان کے ساتھ مشاعرے پڑھے۔ 88 کے بعد کراچی کے حالات اس بُری طرح سے بدلے کہ تمام علاقے علاقہ غیر ہوتے چلے گئے اور پھر وہ تمام شعرا کرام جو خون کے سمندر سے گزر کر اور اپنا بہت کچھ لٹا کر اس آزاد ملک میں آئے تھے ، اپنوں ہی کے ہاتھوں اس طرح قید ہو گئے کہ پھر کسی کو کسی کے انتقال کی خبر نہ ملی کہ لوگ آزادنہ نقل و حمل سے مسدود ہو کر رہ گئے ۔ ڈاکٹر صاحب سے حاصل مراد آبادی صاحب کا سن کر دل شاد ہوا اور میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں ان سے ملنا چاہتاہوں ۔حاصل صاحب سے بہت صحبتیں رہیں ۔ان جیسا غیور ، شریف النفس ،صاحب علم اور تغزل کے شاعر بہت کم ہوتے ہیں ، اوپر سے نام و نمود سے بے پروا ۔ڈاکٹر صاحب بخوشی راضی ہو گئے شرط یہ تھی کہ میں ان کے ہاں آﺅں۔ کل عید کا تیسرا دن تھا ، راشد میرے گھر پر آئے ۔ جانے لگے تو میں کہا کہ راشد اب چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں کسی دن ڈاکٹر صاحب کے ہاں کا پروگرام بناﺅ ۔ قبولیت کی گھڑی تھی کہ راشد کہنے لگے کہ آج ہی چلتے ہیں ،بس فوراً اٹھے اور راشد نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دی اور ہم سب ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچے ۔پھر وہاں سے ہم تینوں حاصل صاحب کی قیام گاہ پر گئے۔ حاصل صاحب سے مل کر مجھے ذوق کے اس شعر کا جس طرح ادراک ہوا ،ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب معاملات واقعی دل و جاں سے تعلق رکھتے ہوں کہ :
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
حاصل صاحب جیسا قناعت پسند ، صابر و شاکر اور محبت و خلوص کا پیکر دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے کہ آدمیوں کے اس جنگل میں اب بھی کچھ انسان باقی ہیں اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ حاصل صاحب جیسے لوگوں کا س دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں ۔ ہم کس قدر بے حس اور خود غرض ہو گئے ہیں۔
پھر جو یادوں کا سلسلہ شروع ہوا اور جو ان پر بیتے واقعات کا پتہ چلاوہ سب راشد کی زبانی سنیے۔
٭٭٭
حاصل مراد آبادی مراد آباد ، یوپی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ 1933 کی بات ہے۔ نئے وطن ہجرت کی۔ یہ سوچ کر کہ اپنے وطن میں پاو ¿ں جمائیں گے، ترقی کریں گے۔ مگر ان کا تعلق اس نسل سے ہے جن کے خون میں خودداری اور وضع داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ لہذا ایسے معصوم ، نیک نیت اور فرشتہ صفت لوگوں کو تو دوران ہجرت ہی کٹ مرنا چاہیے تھا کہ ایک بار کا مرنا بار بار کے مرنے سے بھلا۔
مگر آپ حضرت حاصل مراد آبادی کی زبان پر کوئی شکوہ نہیں پائیں گے۔ یہ ان کی سرشت میں نہیں ہے۔ 80 برس کی عمر میں کراچی کے مضافاتی علاقے ملیر سے بس کا جان لیوا سفر، پہنچنا بہادر یاد جنگ اکادمی جہاں کے کرتا دھرتاو ں کی آنکھ میں اتنی شرم ہے کہ ایک اسی برس کے انسان کو اکادمی میں ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔ ریلوے کی ملازمت سے کب کے سبک دوش ہوئے ،یہ 1928 کی بات ہے۔ پینشن تین ہزار روپلی ملتی ہے۔ جی ہاں! تین ہزار ماہانہ۔شاید اس میں سے بچت بھی ہوجاتی ہو۔
گھر ایسا کہ ادھر داخل ہوئیے ، ادھر ختم۔ دل ایسا کہ کشادہ کہ مہمان نوازی پر ہر آن آمادہ۔ آپ یقین کریں گے کہ اگلے وقتوں کے اس وضع دار بزرگ کی باتیں سن کر ہماری آنکھیں بھیگتی ہی رہی تھیں۔ وہ باتیں جو ، وہ انداز جو اب ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ مگر ذرا ٹھہریے! یہ مت سمجھیے گا کہ یہ باتیں وہ ہیں جو حاصل صاحب اپنے کھٹن شب و روز کے بارے میں کہہ رہے ہوں۔ ہرگز نہیں۔ اس بارے میں تو ایک فقرہ بھی ان کی زبان پر آیا ہو، مجال ہے، حرام ہے۔ وہ اس مٹی کے تو بنے ہی نہیں۔ بقول ان کےع:
ضمیر بیچتے اپنا تو مقتدر ہوتے
خیال عظمت انساں ہمیں تو مار گیا
وہ جو باتیں سناتے رہے، وہ باتیں تو جگر مراد آبادی کی باتیں تھیں، دلچسپ واقعات تھے، شہر کراچی کے مشاعرے تھے جب حاصل مراد آبادی ان میں شریک ہوا کرتے تھے، پذیرائی ہوتی تھی، لوگ بچھ بچھ جاتے تھے۔ شاعر کو اور کیا چاہیے۔ ایک وہ وقت تھا جب ان کو ہر ادبی ذوق رکھنے والا شخص بخوبی جانتا تھا۔ اور ایک آج کا دور کہ جب ایک مرتبہ تاجدار عادل (پروڈیوسر)کی دعوت پر حاصل صاحب سرکاری ٹی وی پر گئے او ر جب وہ پروگرام نشر ہوا تو محلے کے لوگوں نے روک روک کر کہا،کل آپ ٹی وی پر آرہے تھے۔ حاصل صاحب نے سر جھکا کر جواب دیا:
” جی ، وہ میں نہیں تھا، میرا بھائی تھا۔“
ایک موقع پر جب حاصل صاحب نے جگر مراد آبادی سے ان کی کراچی آمد کے مزے دار قصے چھیڑے تو ہم مبہوت ہو کر سنا کیے۔ یہ وہ دور تھا جب حاصل مراد آبادی کی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ کہنے لگے ، ایک پرچہ میں نے جگر صاحب کی جانب کھسکا دیا، کہا اس پر کچھ لکھ دیجیے۔ جگر پر سکوت طاری ہوا، کچھ سوچنے لگے۔ ادھر حاصل صاحب نے کچھ کہنا چاہا، جگر بولے ”خاموش میاںمیں سوچ رہا ہوں“پھر قلم اٹھایا اور یہ قطعہ لکھ دیا جو بقول حاصل مراد آبادی، غیر مطبوعہ ہی رہا،شاید ہند میں کبھی کہیں شائع ہوا ہو۔
آپ بھی سنئیے کہ ہم تو حاصل صاحب کی زبان سے سن رہے تھے اور محظوظ ہورہے تھے:
وسعت فکر و نظر بھی نہ مجھے راس آئی
ہر تبسم پہ جراحت کا گماں ہوتا ہے
ساز و مطرب کے کرشموں پہ نہ جا کہ یہاں
اکثر اس طرح سے بھی رقص فغاں ہوتا ہے
ہم نے حاصل صاحب سے ان کے کلام کی فرمائش کی، پہلے تو وہ انکار کرتے رہے مگر پھر کچھ نہ کچھ سنایا۔
کلام شاعر بہ زبان شاعر۔
کبھی سنے تھے نہ خواب و خیال میں آئے
جو حادثے ہمیں درپیش حال میں آئے
تلاش عظمت ِرفتہ میں گم ہیں کیوں آنکھیں
یہاں تو شمس و قمر بھی زوال میں آئے
ہم اہل دل پہ ہی تہمت ہے کیوں اسیری کی
بڑے بڑے تیری زلفوں کے جال میں آئے
×٭×
کیسے اپنائیں ضمیروں کی تجارت کا اصول
سانحہ یہ ہے کہ ہم بھی اسی بازار میں ہیں
×٭×
وصال و ہجر کے موسم انہیں مبارک ہوں
جو کم نگاہ تجھے دل سے دور جانتے ہیں
×٭×
حسن کے منظر کا پس منظر سمجھنا چاہئے
پھر اسے محبوب یا دلبر سمجھنا چاہئے
آہ و زاری شیوہءاہلِ طلب ہے کس لئے
اس حقیقت کو بچشمِ تر سمجھنا چاہئے
خواہشِ تسکینِ دل حاصل یہاں بے سود ہے
زندگی کو عرصہء محشر سمجھنا چاہئے
حاصل مراد آبادی کی اہلیہ کچھ عرصہ قبل ان کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ وہ ساتھ ، وہ تعلق جو ساٹھ برس کے عرصے پر محیط تھا۔ ان کی اہلیہ ایک طویل عرصے سے معذوری کی زندگی گزار رہی تھیں مگر اس حالت میں بھی حاصل صاحب کا خیال رکھتی تھیں۔ مرحومہ کا ذکر کرتے وقت ان کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں:
” پچھلے دنوں ’میرے گھر میں سے‘ انتقا ل کرگئیں۔ ایک خلا پیدا ہوگیا۔ میں ٹوٹ کر رہ گیا، انہوں نے گھر کو کیسے سنبھالا ہوا تھا ، میں کیا عرض کروں۔“
وہ عرض نہ بھی کرتے تب بھی ان کے شکن آلود چہرے پر تو سب کچھ لکھا ہوا تھا۔ دو بیٹیاں شادی شدہ جبکہ ایک بیٹی ہے جس نے ماں کی خدمت میں دن رات ایک کیا اور اسی حالت میں اس کی شادی کی عمر نکل گئی۔ ماں چلی گئی، باپ پہلے ہی خاموش طبع تھا، اب مزید سمٹ کر رہ گیا۔ طبعاً بھی اور جسمانی طور پر بھی۔
ساٹھ گز کا کوارٹر اس شخص کا مسکن ہے جو اس قابل تھا کہ ایک اطمینان بخش زندگی گزارتا۔ ہجرت کے بعد کیسے کیسے لوگ ، کہاں جا بیٹھے ، پیسے کے حصول کی اندھی دوڑ نے معاشرے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔
کم ظرفوں کو رفعتیں نصیب ہوئیں، شریف آدمی منہ چھپاتا پھرا۔
اور ادھر حاصل مراد آبادی جیسے وضع دار لوگ ساٹھ گز کے کوارٹر سے جان توڑ محنت کے بعد بھی نکل نہ پائے۔ اور اب ؟ اب تو یہ حال ہے کہ ان کا بس چلے تو اٹواٹی کھٹواٹی (اگر اس چیز کا کوئی وجود باقی رہ گیا ہے تو) لے کر پڑے رہیں۔ کوئی بات کرنے والا نہ رہا، دوست احباب دنیا سے اٹھ گئے۔
میں پوچھتے پوچھتے رہ گیا کہ حاصل صاحب قبلہ! کیا یہی زیست کا حاصل رہا ؟
البتہ ایک حسرت ہے مگر اس حسرت کو دل میں چھپائے عرصہ پندرہ برس کا گزر چکا ہے۔ وہ یہ کہ ان کا مجموعہ کلام شائع ہوجائے۔ ہمارے میزبان ڈاکٹر رضوان اللہ خاں صاحب سے علم ہوا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں جب جب کبھی بھی حاصل صاحب سے کسی نے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بارے میں پوچھا انہوں نے یہی جواب دیا کہ جی ہاں! ہو رہا ہےہوجائے گا۔ مگر چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔
ہاں البتہ کوئی یہ کہہ دے کہ جناب لائیے، ہم شائع کرتے ہیں آپ کی کتاب تو بقول ڈاکٹر صاحب، حاصل صاحب جھٹ مسودہ نکال کر ہاتھ پر رکھ دیں گے کہ بسم اللہ۔
مگر ایسا کرے کون ؟ کس کو اتنی فرصت ہے کہ ایک اسی سالہ انسان کے لیے سوچے۔ یہی سوچتے ہوئے ہم نے حاصل صاحب سے اجازت طلب کی۔ وہ باہر تک آئے، ان کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ کو ہم سب نے تھاما جو اس قابل تھا کہ اسے چوما جائے، آنکھوں سے لگایا جائے۔
ایک شریف، انتہائی مخلص، رکھ رکھاؤ والا ، مرنج مرنجاں شخص
میرا جی کرتا تھا کہ ان سے کہوں کہ آپ کی قربانیوں کی وجہ سے میں آج آسودہ حالی کی زندگی بسر کرتا ہوں۔ زندگی کی تمام سہولتیں مجھے میسر ہیں۔ یہاں آپ جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں کی تنگ گلیوں میں میری گاڑی تک جا نہیں سکتی۔
حاصل صاحب! آپ نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا ۔ مگر ایک ہم ہیں کہ اور کچھ تو دور کی بات، آپ کی زندگی کی سب سے پرمسرت چیز یعنی آپ کی شاعری کی کتاب بھی شائع نہیں کرواسکتے۔
واپسی پر ہم سب کے دل بوجھل تھے۔ مگر کب تک ؟ وہ عید کا تیسرا روز تھا۔ایک ہنگامہ خیز ، پرمسرت اور رنگا رنگ تہوار کا تیسرا دن۔ اپنی قیام گاہ تک پہنچتے پہنچتے میرے ذہن پر اگلے روز کی مصروفیت کے خیالات قبضہ جما چکے تھے۔ اور میں حاصل مراد آبادی کو بھول چکا تھا۔
مگرکہیں ایسا تو نہیں کہ حاصل مراد آبادی کو بھلا کر کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اپنے آپ کو بھلا بیٹھا ہوں ؟
راشد اشرف۔ یکم اگست ،2014