غزل: گر چہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا : مزمل شیخ بسملؔ

ہنوز نا تمام تازہ غزل پیش خدمت ہے ابھی وارد ہوئی ہے۔ اصحابِ ذوق کی نذر:
گر چہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا
پر وہیں خانہ خرابوں کے لئے زنداں بھی تھا
ہم خرابے میں پڑے مرتے ہیں وقتِ نزع آج
تھوڑا آگے بڑھتے تو عشرت کا ہر ساماں بھی تھا
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر لئے پھرتا رہا
گو بظاہر رند تھا پر صاحبِ ایماں بھی تھا
امتزاجِ حسن و عشق ایسی فریبی چیز ہے
تھے پریشاں وہ فقط، اور میں یہاں حیراں بھی تھا
حیف ہے پازی پلٹ دی، مجھ کو رسوا کر دیا
تیرے پہلو میں تو شخصِ غیر اک پنہاں بھی تھا
ق
بجھ کہ خالی ہوگیا ہے چشمِ نم کی سیل سے جو
اس خلا میں پہلے شاید اک دلِ سوزاں بھی تھا
اس لئے تو چند کلیوں پر قناعت کر گیا
دل میں تو کُل باغباں کو پانے کا ارماں بھی تھا
 

باباجی

محفلین
واہ بہت خوب مزمل صاحب بہت خوب غزل

کیا خوب ہم خرابوں کی بات کی
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر لئے پھرتا رہا
گو بظاہر رند تھا پر صاحبِ ایماں بھی تھا
 
واہ بہت خوب مزمل صاحب بہت خوب غزل

کیا خوب ہم خرابوں کی بات کی
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر لئے پھرتا رہا
گو بظاہر رند تھا پر صاحبِ ایماں بھی تھا

بہت شکریہ باباجی
آپ کو پسند آئی ہماری محنت وصول پائی۔ میرے لئے باعثِ مسرت ہے۔ :)
 

باباجی

محفلین
بہت شکریہ باباجی
آپ کو پسند آئی ہماری محنت وصول پائی۔ میرے لئے باعثِ مسرت ہے۔ :)
میرے بھائی
مجھے 1000 میں سے 1 بھی چیز اچھی لگے تو میں پورے 1000 کو پسند کرلیتا ہوں
اور آپ نے تو (میرے ناقص ) حساب میں پورا 1000 ہی بہت خؤب لکھا
لہٰذا ناپسندیدگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (y)
 
میرے بھائی
مجھے 1000 میں سے 1 بھی چیز اچھی لگے تو میں پورے 1000 کو پسند کرلیتا ہوں
اور آپ نے تو (میرے ناقص ) حساب میں پورا 1000 ہی بہت خؤب لکھا
لہٰذا ناپسندیدگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (y)

حسن ظن ہے جناب۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ کیوں شرمندہ کرتے ہو صاحب۔ :)
 

باباجی

محفلین
مجھے تھوڑی شیرینی کے ساتھ تلخی پسند ہے
تو آپ کے کلام میں وہ بات مجھے نظر آئی
ہر دو رخ کی بات کی آپ نے
 
ہنوز نا تمام تازہ غزل پیش خدمت ہے ابھی وارد ہوئی ہے۔ اصحابِ ذوق کی نذر:

اچھا تعارف ہے جنابِ شیخ! ’’ورودِ ناتمام‘‘۔ ایک بات بتا دیجئے؛ کیا ہم اس کو تضمین کہہ سکتے ہیں؟

۔۔۔۔
ق
بجھ کہ خالی ہوگیا ہے چشمِ نم کی سیل سے جو
اس خلا میں پہلے شاید اک دلِ سوزاں بھی تھا
یہاں شاید ٹائپو ہو گیا؟ ’’بجھ کہ‘‘ ؟؟ ’’بجھ کے‘‘ ؟؟ کا احتمال ہو رہا ہے۔ پہلے مصرعے میں آخری لفظ ’’جو‘‘ بحر سے زائد ہے۔
ایک نکتہ اور بھی پیش کرتا چلوں: خلا خالی ہو گیا؟ یا خلا واقع ہو گیا؟ یا خلا پیدا ہو گیا؟


جناب مزمل شیخ بسمل
 
بقیہ سارے شعر بہت عمدہ، بہت پختہ ہیں اور مضامین بھی خوب ہیں۔
بہت ساری داد قبول فرمائیے۔

جناب مزمل شیخ بسمل

اظہار میں چابک دستی کی مثال: ’’ہم خرابے میں پڑے مرتے ہیں ۔۔!‘‘ واہ کیا بے ساختہ پن اور زبان کی لذت ہے!
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر ۔۔ بے شک بہت عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔

حیف ہے پازی پلٹ دی، مجھ کو رسوا کر دیا
تیرے پہلو میں تو شخصِ غیر اک پنہاں بھی تھا
پازی ۔۔ ٹائپو ہے، اس کو ٹھیک کر لیجئے گا۔ اور دوسرے مصرعے کو تھوڑا سا نکھار لیجئے تو بہتر ہے۔
 
اچھا تعارف ہے جنابِ شیخ! ’’ورودِ ناتمام‘‘۔ ایک بات بتا دیجئے؛ کیا ہم اس کو تضمین کہہ سکتے ہیں؟

۔۔۔ ۔

یہاں شاید ٹائپو ہو گیا؟ ’’بجھ کہ‘‘ ؟؟ ’’بجھ کے‘‘ ؟؟ کا احتمال ہو رہا ہے۔ پہلے مصرعے میں آخری لفظ ’’جو‘‘ بحر سے زائد ہے۔
ایک نکتہ اور بھی پیش کرتا چلوں: خلا خالی ہو گیا؟ یا خلا واقع ہو گیا؟ یا خلا پیدا ہو گیا؟


جناب مزمل شیخ بسمل

1۔ جی اسے تضمین کہہ سکتے ہیں۔ مگر کس کی؟ یہ مجھے علم نہیں۔ :)
2۔ "بجھ کے" ہی ہے۔
3۔ خالی ہوجانے پر توجہ دلانے کا بہت بہت شکریہ۔ در اصل یہاں خلا کی جگہ مجھے "خانہ" باندھنا تھا تو پہلے مصرعے میں خالی کا لفظ باندھا۔ پھر خانہ کی جگہ خلا کردیا مگر خالی کا ذہن میں ہی نہ رہا۔ :)
4۔ لفظ "جو" وزن سے زائد نہیں ہے میرے ناقص علم کے مطابق۔ آپ کو زائد لگا تو وجہ جاننا چاہونگا۔
بہت آداب۔
 
بقیہ سارے شعر بہت عمدہ، بہت پختہ ہیں اور مضامین بھی خوب ہیں۔
بہت ساری داد قبول فرمائیے۔

جناب مزمل شیخ بسمل

اظہار میں چابک دستی کی مثال: ’’ہم خرابے میں پڑے مرتے ہیں ۔۔!‘‘ واہ کیا بے ساختہ پن اور زبان کی لذت ہے!
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر ۔۔ بے شک بہت عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔


پازی ۔۔ ٹائپو ہے، اس کو ٹھیک کر لیجئے گا۔ اور دوسرے مصرعے کو تھوڑا سا نکھار لیجئے تو بہتر ہے۔

جی ابھی ایک بار غزل مکمل کرلوں تو اصلاحی کام کی طرف بھی رجوع کرنا ہے۔ جس مصرع کو نکھارنے کا آپ نے کہا وہ مجھے بھی تھوڑا کھٹک رہا ہے۔ بہرحال کرتا ہوں کچھ۔ کچھ اور کہنے کا دل بھی ہے۔ طبیعت میں جو جمود طاری ہے وہ بھی آڑے آرہا ہے۔
 
جی، میں عرض کرتا ہوں: ۔۔​
بجھ کے خالی ہوگیا ہے چشمِ نم کی سیل سے جو
اس خلا میں پہلے شاید اک دلِ سوزاں بھی تھا
بجھ کے خالی (فاعلاتن) ہو گیا ہے (فاعلاتن) چشم نم کی (فاعلاتن) سیل سے جو (فاعلاتن) ۔۔ بحر رمل مثمن سالم
اس خلا میں (فاعلاتن) پہلے شاید (فاعلاتن) اک دلِ سو (فاعلاتن) زاں بھی تھا (فاعلن) ۔۔ بحر رمل مثمن محذوف
اس پوری غزل کی بحر یہی ’’بحر رمل مثمن محذوف‘‘ ہے۔
دعاؤں کا طالب ہوں
 
جی، میں عرض کرتا ہوں: ۔۔​
بجھ کے خالی ہوگیا ہے چشمِ نم کی سیل سے جو
اس خلا میں پہلے شاید اک دلِ سوزاں بھی تھا
بجھ کے خالی (فاعلاتن) ہو گیا ہے (فاعلاتن) چشم نم کی (فاعلاتن) سیل سے جو (فاعلاتن) ۔۔ بحر رمل مثمن سالم
اس خلا میں (فاعلاتن) پہلے شاید (فاعلاتن) اک دلِ سو (فاعلاتن) زاں بھی تھا (فاعلن) ۔۔ بحر رمل مثمن محذوف
اس پوری غزل کی بحر یہی ’’بحر رمل مثمن محذوف‘‘ ہے۔
دعاؤں کا طالب ہوں

استادِ محترم تھوڑا سا عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں گو کہ اس قابل نہیں ہوں۔۔ در اصل میں نے یہاں رمل محذوف کے ساتھ رمل مکفوف کا خلط کردیا ہے۔ یعنی مصرعے کا وزن ایسے ہے:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتُ

گویا آخرِ مصرع ایک متحرک کا اضافے کیا ہے اور "جو" سے واؤ کو گرا دیا ہے۔
سند میں غالب کا شعر (بلکہ پوری غزل ہی) پیشِ خدمت ہے:

عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
 
استادِ محترم تھوڑا سا عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں گو کہ اس قابل نہیں ہوں۔۔ در اصل میں نے یہاں رمل محذوف کے ساتھ رمل مکفوف کا خلط کردیا ہے۔ یعنی مصرعے کا وزن ایسے ہے:​
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتُ​

میں تو سہل پسند آدمی ہوں۔ اگر یہ مصرع میرا ہوتا تو میں اس کو یوں کر لیتا:

ع:
بجھ کے خالی

ہوگیا جو

چشمِ نم کی

سیل سے
ہمزۂ آخر کا معاملہ الگ ہے۔ اختیار بہر حال آپ کے پاس ہے۔ خوش رہئے۔
 
Top