مزمل شیخ بسمل
محفلین
ہنوز نا تمام تازہ غزل پیش خدمت ہے ابھی وارد ہوئی ہے۔ اصحابِ ذوق کی نذر:
گر چہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا
پر وہیں خانہ خرابوں کے لئے زنداں بھی تھا
ہم خرابے میں پڑے مرتے ہیں وقتِ نزع آج
تھوڑا آگے بڑھتے تو عشرت کا ہر ساماں بھی تھا
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر لئے پھرتا رہا
گو بظاہر رند تھا پر صاحبِ ایماں بھی تھا
امتزاجِ حسن و عشق ایسی فریبی چیز ہے
تھے پریشاں وہ فقط، اور میں یہاں حیراں بھی تھا
حیف ہے پازی پلٹ دی، مجھ کو رسوا کر دیا
تیرے پہلو میں تو شخصِ غیر اک پنہاں بھی تھا
ق
بجھ کہ خالی ہوگیا ہے چشمِ نم کی سیل سے جو
اس خلا میں پہلے شاید اک دلِ سوزاں بھی تھا
اس لئے تو چند کلیوں پر قناعت کر گیا
دل میں تو کُل باغباں کو پانے کا ارماں بھی تھا