غزل: گر چہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا : مزمل شیخ بسملؔ

ایک بات بتا دیجئے؛ کیا ہم اس کو تضمین کہہ سکتے ہیں؟


جناب مزمل شیخ بسمل
بہت خوب غزل ہے جناب۔ بہت ساری داد قبول فرمائیے۔

ہمیں تو پوری غزل اس شعر کا جواب نظر آئی۔ وللہ اعلم

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا​
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ء داماں بھی تھا​
 
بہت خوب غزل ہے جناب۔ بہت ساری داد قبول فرمائیے۔

ہمیں تو پوری غزل اس شعر کا جواب نظر آئی۔ وللہ اعلم

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا​
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ء داماں بھی تھا​


بہت شکریہ خلیل بھائی۔ آپ کی محبت ہے۔ :)

اس فقیر کے سوال کا مدعا بھی یہی تھا، جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔ اور صاحبِ غزل سے اس کا جواب بھی اثبات میں ملا۔
اللہ خوشیاں دے۔


استادِ محترم اسے تضمین ہی کہہ لیجئے مگر ردیف میں ایک خفیف سا فرق کردیا ہے میں نے۔ اصل شعر یوں ہے:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے

میں نے ردیف کے "ہے" کو "تھا" کردیا ہے۔
 
میں تو سہل پسند آدمی ہوں۔ اگر یہ مصرع میرا ہوتا تو میں اس کو یوں کر لیتا:

ع:
بجھ کے خالی

ہوگیا جو

چشمِ نم کی

سیل سے
ہمزۂ آخر کا معاملہ الگ ہے۔ اختیار بہر حال آپ کے پاس ہے۔ خوش رہئے۔

مصرع کی اس صورت کو اختیار کرنے میں مجھے تامل تھا۔ شعر میں "ہے" اور "تھا" کا تناسب جو لذت بخش رہا تھا وہ بنا "ہے" کہ مجھے محسوس نہیں ہورہی ہے۔ بہر حال بہت شکر گذار آپ کی اس قدر توجہ کا۔ امید ہے ہمیشہ یہ توجہ حاصل رہے گی۔
 
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے




غالب کی اس غزل میں ’ہائے ہائے‘ فاعلات کے ہم وزن ہے۔
جناب الف عین کے ارشاد کے مطابق اس مصرعے
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
کی بحر فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ہوئی یعنی ’’مقصور‘‘۔
۔۔۔
سادہ انداز میں کیا یوں کہا جا سکتا ہے؟ کہ ’’بحر رمل مثمن کی محذوف اور مقصور صورتیں مقابل آ سکتی ہیں؟‘‘ میرا خیال ہے ’’ہاں‘‘۔
۔۔۔
تاہم میرے لئے ’’ہائے ہائے‘‘ کے آخری ہمزہ کا معاملہ آخری ’’جو‘‘ سے مختلف ہے کہ میں اس ’’جو‘‘ کو واو کے بغیر پڑھ ہی نہیں سکتا۔ جناب شیخ صاحب اس کو محذوف اور مکفوف کا خلط کہہ رہے ہیں گویا ’’محذوف مکفوف مخلوط‘‘؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرت خواہ ہوں۔
 
جی. محذوف کے کی جگہ مقصور یا مکفوف کا خلط ہر طرح جائز ہے. ہائے ہائے کے آخر سے جس طرح ے کو گرایا گیا ہے اسی طرح جو سے واؤ کو گرایا جاتا ہے. یہ عام بات ہے. اور اگر مان لیا جائے کہ غالب کا مصرع مقصور ہے تو بھی مکفوف کو استعمال کرنا کہیں منع نہیں. اور نہ ہی جو سے واؤ گرنا نا جائز ہے.

نوٹ: یہ بات میرے مصرعے سے قطع نظر خالص تکنیکی نظریہ ہے. مجھے اپنے مصرعے پر بحث نہیں.
:)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہم خرابے میں پڑے مرتے ہیں وقتِ نزع آج
تھوڑا آگے بڑھتے تو عشرت کا ہر ساماں بھی تھا
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر لئے پھرتا رہا
گو بظاہر رند تھا پر صاحبِ ایماں بھی تھا

واہ واہ
مزمل بھائی کیا خوب غزل اور کیا خوبصوررت اشعار ہیں
 
ہم خرابے میں پڑے مرتے ہیں وقتِ نزع آج
تھوڑا آگے بڑھتے تو عشرت کا ہر ساماں بھی تھا
کیا ہی کہنے بہت خوب :)
بہت ہی خوبصورت کلام​
اللہ کرے زورِ قلم زیادہ​
 
جی. محذوف کے کی جگہ مقصور یا مکفوف کا خلط ہر طرح جائز ہے. ہائے ہائے کے آخر سے جس طرح ے کو گرایا گیا ہے اسی طرح جو سے واؤ کو گرایا جاتا ہے. یہ عام بات ہے. اور اگر مان لیا جائے کہ غالب کا مصرع مقصور ہے تو بھی مکفوف کو استعمال کرنا کہیں منع نہیں. اور نہ ہی جو سے واؤ گرنا نا جائز ہے.

نوٹ: یہ بات میرے مصرعے سے قطع نظر خالص تکنیکی نظریہ ہے. مجھے اپنے مصرعے پر بحث نہیں.
:)
بحر الفصاحت میں درج ہے کہ کف، شکل اور خبل عروض و ضرب میں نہیں آتے۔
 
Top