سید اسد معروف
محفلین
لڑکپن میں لکھا ہوا پرانا کلام سلور جوبلی(پچیس سال )کےبعداصلاح کے لیے حاضر ہے۔
(کئی احباب تو اپنے بچپن کے کلام سے دستبردار ہورہے ہیں مگر میرا تو اب کا کلام بھی ایسا ہی ہے)
غزل
اداس چہرے سے محسوس تم کو کیا ہوتا
ہمارے دِل پہ کبھی ہاتھ رکھ دیا ہوتا
صبح تو روز ہی ہوتی ہے، کیسی جلدی تھی!!
ذرا سی دیر کو اے چاند رک گیا ہوتا
سروں کی بزم میں مل کر بکھیرتے نغمے
تو ساز بن کے کھنکتی تو میں صدا ہوتا
تمہاری زلف سے اٹھکیلیاں کیا کرتا
میں تم کو چھو کے گزرتا اگر ہوا ہوتا
تمہاری ضِدّ نے ہی پتّھر بنادیا ورنہ
پِگھل کے میں ترے سانچے میں ڈھل گیا ہوتا
نہ کوئی بات بگڑتی نہ فاصلہ ہوتا
ہمارے بیچ اگر کوئی رابطہ ہوتا
میں روزگار کے غم کِس طرح سے سہہ پاتا
فِراقِ یار کا صدمہ نہ گر سہا ہوتا
تمہارے ناز اٹھائے بغیر مِل جاتا
تمہارا پیار مقّدر میں گر لکھا ہوتا
جو خارِ راہ درِ یار پہ بِچھے ہوتے
تو میرے پاؤں پہ کیا سر پہ آبلہ ہوتا
1991
(کئی احباب تو اپنے بچپن کے کلام سے دستبردار ہورہے ہیں مگر میرا تو اب کا کلام بھی ایسا ہی ہے)
غزل
اداس چہرے سے محسوس تم کو کیا ہوتا
ہمارے دِل پہ کبھی ہاتھ رکھ دیا ہوتا
صبح تو روز ہی ہوتی ہے، کیسی جلدی تھی!!
ذرا سی دیر کو اے چاند رک گیا ہوتا
سروں کی بزم میں مل کر بکھیرتے نغمے
تو ساز بن کے کھنکتی تو میں صدا ہوتا
تمہاری زلف سے اٹھکیلیاں کیا کرتا
میں تم کو چھو کے گزرتا اگر ہوا ہوتا
تمہاری ضِدّ نے ہی پتّھر بنادیا ورنہ
پِگھل کے میں ترے سانچے میں ڈھل گیا ہوتا
نہ کوئی بات بگڑتی نہ فاصلہ ہوتا
ہمارے بیچ اگر کوئی رابطہ ہوتا
میں روزگار کے غم کِس طرح سے سہہ پاتا
فِراقِ یار کا صدمہ نہ گر سہا ہوتا
تمہارے ناز اٹھائے بغیر مِل جاتا
تمہارا پیار مقّدر میں گر لکھا ہوتا
جو خارِ راہ درِ یار پہ بِچھے ہوتے
تو میرے پاؤں پہ کیا سر پہ آبلہ ہوتا
1991