نظر لکھنوی غزل: ہم نشیں پوچھ نہ کس بات پہ رونا آیا ٭ نظرؔ لکھنوی

ہم نشیں پوچھ نہ کس بات پہ رونا آیا
اپنی ہی گردشِ حالات پہ رونا آیا

دل کے سنگین خیالات پہ رونا آیا
اسی بد خُو، اسی بد ذات پہ رونا آیا

دورِ ماضی تو مسلماں کا بہت ہے خوش کن
عہدِ حاضر کی روایات پہ رونا آیا

تیرہ بختی سے مری گونہ تعلق ہے اسے
اس لیے مجھ کو سیہ رات پہ رونا آیا

غیرِ اللہ سے سائل جو مسلماں ہے تو حیف
مجھ کو ہر ایسی مناجات پہ رونا آیا

خوں پسینہ کی کمائی نہیں کافی دو روز
مردِ مزدور کی اوقات پہ رونا آیا

مرحلے غم کے گزارے ہیں نظرؔ ہنس ہنس کر
پھر بھی چند ایک مقامات پہ رونا آیا

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

م حمزہ

محفلین
بہت ہی اچھے اشعار ہیں سارے کے سارے۔
مسلمانوں کی جو حالت ہے اس کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے ۔ باضمیر اور حساس آدمی ضرور ان حالات پہ رو اُٹھے گا۔ یہ الگ بات ہے ہمیں جگانے کی ہر دور اور ہر حالت میں کوشش کی گئی اور کی جاتی ہے لیکن بقول علامہ اقبال امت مسلمہ کے سینے سے جیسے روح محمدی ہی نکال دی گئی ہے ۔

اللہ شاعر کو اور آپ کو بھی جزائے خیر عطا کرے۔
 
ت۔
ہم نشیں پوچھ نہ کس بات پہ رونا آیا
اپنی ہی گردشِ حالات پہ رونا آیا

دل کے سنگین خیالات پہ رونا آیا
اسی بد خُو، اسی بد ذات پہ رونا آیا

دورِ ماضی تو مسلماں کا بہت ہے خوش کن
عہدِ حاضر کی روایات پہ رونا آیا

تیرہ بختی سے مری گونہ تعلق ہے اسے
اس لیے مجھ کو سیہ رات پہ رونا آیا

غیرِ اللہ سے سائل جو مسلماں ہے تو حیف
مجھ کو ہر ایسی مناجات پہ رونا آیا

خوں پسینہ کی کمائی نہیں کافی دو روز
مردِ مزدور کی اوقات پہ رونا آیا

مرحلے غم کے گزارے ہیں نظرؔ ہنس ہنس کر
پھر بھی چند ایک مقامات پہ رونا آیا

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
تمام اشعار بہت خوبصورت ہیں ۔
رلا دینے والی غزل اس دور میں مسلمانوں کا غم اور مزدور کی حالت پر بہترین اشعار۔
الّہ آپ کو سلامت رکھّے۔
 
Top