غزل : ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے - علامہ رشید ترابیؔ

غزل
ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے
زمیں پہ پاؤں نہ تھے احتیاط کیا کرتے

شراب نام ہے خود ساختہ تغافل کا
خرد کو آگ لگی تھی نشاط کیا کرتے

جو ہم نشیں تھے گل و خار کہہ دیا ، ہمسر
فریبِ عہد ہے یہ ، بے بساط کیا کرتے

قدم قدم پہ نئے گل کُھلا رہی ہے ہوس
حیا سے گڑ گئے ہم انبساط کیا کرتے

رچائے بیٹھے ہیں ہو موڑ پر جو عشق کا ڈھونگ
جُنوں کو عقل سے کیا ارتباط کیا کرتے

گراں ہیں گوش ، نظر میں ضرر ، خرد میں فساد
تلاشِ طُور ، دمِ انحطاط کیا کرتے

خمیرِ نورِ ولایت ہے ان کی طینت میں
پھر آب و گل سے رشیدؔ اختلاط کیا کرتے
علامہ رشید ترابیؔ
 

اکمل زیدی

محفلین
عمدہ ۔۔۔رشید ترابی صاحب کا ایک کلام کے کچھ اشعار یاد آگئے۔۔۔
جہاں ولی ہے عیاں لا الہ الا اللہ
نہ کون ہے نہ مکاں لا الہ الا اللہ

سبک ہے دونوں جہاں لا الہ الا اللہ
گراں ہے سخت گراں لا الہ الا اللہ

رشیدؔ امامِ زمانہ کی معرفت کے بغیر
فقط ہے وہم و گماں لا الہ الا اللہ
 
Top