کچھ پرندے ہیں نہیں پیڑ کے عادی وہ بھی،
چھوڑ جائیں گے کسی روز یہ وادی وہ بھی
خواب میں کچھ در و دیوار بنا رکھے ہیں،
جانے کیا سوچ کے تعمیر گِرا دی وہ بھی
میرے گھر میں نئی تصویر تھی اس چہرے کی،
رنگ دیوار کا بدلا تو ہٹا دی وہ بھی
میں نے کچھ پھول بناے تھے مِٹا ڈالے ہیں،
ایک تتلی بھی بنای تھی اڑا دی وہ بھی
مجھ کو جادو نہیں آتا تھا پری سے سیکھا،
بن گیا آپ بھی ... پتھر کی بنا دی وہ بھی
میں نے اِک راہ نِکالی تھی زمانے سے الگ،
تو نے آتے ہی زمانے سے مِلا دی وہ بھی
فیصل عجمی
یہ آسمان کوئ فسانہ تو ہے نہیں
ہم اس کو دیکھتے ہیں گرانا تو ہے نہیں
مٹھی میں ایک زہر ہے دنیا کہیں جسے
سب سے چھپائے پھرتے ہیں کھانا تو ہے نہیں
دو چار لوگ ہیں جو مری آستیں میں ہیں
میرے خلاف سارا زمانہ تو ہے نہیں
پہنیں گے خاکدان کا زر بفت پیرہن
یاروں نے اس کا دام چکانا تو ہے نہیں
کہتا ہوں عشق سے کہ مری جان چھوڑ دے
لگتا ہے مان جائے گا مانا تو ہے نہیں
گھر جانا چاہتے ہیں کہ مدت ہوئ گئے.
اس کے علاوہ کوئ بہانہ تو ہے نہیں
مانگا ہے عشق بھی من و سلوی کے نام پر.
اترے گا آسماں سے کمانا تو ہے نہیں
کیا علم چارسو سے نکل جائے کس طرف
آوارگی کا کوئ ٹھکانہ تو ہے نہیں فیصل عجمی