نوید صادق
محفلین
نوید صادق
غزل
کون آسیب آ بسا دل میں
کر لیا ڈر نے راستہ دل میں
اے مرے کم نصیب دل!کچھ سوچ
ہے کوئی تیرا آشنا دل میں
کم ہے جس درجہ کیجئے وحشت
گونجتا ہے دماغ سا دل میں
عکس بن بن کے مٹتے جاتے ہیں
رکھ دیا کس نے آئنہ دل میں
میں ہوں، ماضی ہے اور مستقبل
کم ہے فی الحال حوصلہ دل میں
آخر آخر نوید صادق بھی
آن بیٹھا، رہا سہا، دل میں
(نوید صادق)
غزل
کون آسیب آ بسا دل میں
کر لیا ڈر نے راستہ دل میں
اے مرے کم نصیب دل!کچھ سوچ
ہے کوئی تیرا آشنا دل میں
کم ہے جس درجہ کیجئے وحشت
گونجتا ہے دماغ سا دل میں
عکس بن بن کے مٹتے جاتے ہیں
رکھ دیا کس نے آئنہ دل میں
میں ہوں، ماضی ہے اور مستقبل
کم ہے فی الحال حوصلہ دل میں
آخر آخر نوید صادق بھی
آن بیٹھا، رہا سہا، دل میں
(نوید صادق)