محمداحمد
لائبریرین
غزل
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار! کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں ، مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
دل میں وہ زخم کھلے ہیں چمن کیا شے ہے
گھر میں بارات سی اتری ہے گلدانوں کی
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا ، یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
تیری رحمت تو مسلّم ہے مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کِس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
ایک اِک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت
کعبہ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی
احمد ندیم قاسمی
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار! کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں ، مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
دل میں وہ زخم کھلے ہیں چمن کیا شے ہے
گھر میں بارات سی اتری ہے گلدانوں کی
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا ، یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
تیری رحمت تو مسلّم ہے مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کِس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
ایک اِک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت
کعبہ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی
احمد ندیم قاسمی