غزل ۔ اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا
اِک حشر یہاں بپا رہا تھا

دستار ، کہ پاؤں میں پڑی تھی
سردار کسی پہ ہنس رہا تھا

وہ شام گزر گئی تھی آ کے
رنجور اُداس میں کھڑا تھا

دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا

صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا

اِک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا ، بِھڑا ہوا تھا

شب خون میں روشنی بہت تھی
تھا کون جو دیکھتا رہا تھا

جزدان میں آیتیں چُھپی تھیں
گلدان میں پھول کھل رہا تھا

اِک شخص کہ تھا وفا کا پیکر
وہ شخص بھی مائلِ جفاتھا

دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا

کچھ پھول کھلے ہوئے تھے گھر میں
کچھ یاد سے دل مہک رہاتھا

کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

اُس شام تھا دل بہت اکیلا
میں ہنستے ہنستے رو پڑا تھا

تھی بات بہت ذرا سی احمدؔ
اس دل کو نہ جانے کیا ہوا تھا

محمد احمدؔ
 

فاخر رضا

محفلین
کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

کیا نقشہ کھینچا ہے. بہت ہی خوبصورت
ماشاءاللہ
 
یقیناً
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

اور کیا ہی عمدہ مضامین اور اشعار ہیں۔ بہت سی داد اور دعائیں۔ :)
غزل

اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا
اِک حشر یہاں بپا رہا تھا

دستار ، کہ پاؤں میں پڑی تھی
سردار کسی پہ ہنس رہا تھا

وہ شام گزر گئی تھی آ کے
رنجور اُداس میں کھڑا تھا

دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا

صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا

اِک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا ، بِھڑا ہوا تھا

شب خون میں روشنی بہت تھی
تھا کون جو دیکھتا رہا تھا

جزدان میں آیتیں چُھپی تھیں
گلدان میں پھول کھل رہا تھا

اِک شخص کہ تھا وفا کا پیکر
وہ شخص بھی مائلِ جفاتھا

دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا

کچھ پھول کھلے ہوئے تھے گھر میں
کچھ یاد سے دل مہک رہاتھا

کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

اُس شام تھا دل بہت اکیلا
میں ہنستے ہنستے رو پڑا تھا

تھی بات بہت ذرا سی احمدؔ
اس دل کو نہ جانے کیا ہوا تھا

محمد احمدؔ
 
واہ۔
ناصر کاظمی کا سا انداز اپنایا ہے۔ بہت خوب:)

تیرے دھیان کی کشتی لیکر
میں نے دریا پار کیا تھا
یا پھر
تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تیری یاد نے گھیر لیا تھا
 
غزل

اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا
اِک حشر یہاں بپا رہا تھا

دستار ، کہ پاؤں میں پڑی تھی
سردار کسی پہ ہنس رہا تھا

وہ شام گزر گئی تھی آ کے
رنجور اُداس میں کھڑا تھا

دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا

صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا

اِک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا ، بِھڑا ہوا تھا

شب خون میں روشنی بہت تھی
تھا کون جو دیکھتا رہا تھا

جزدان میں آیتیں چُھپی تھیں
گلدان میں پھول کھل رہا تھا

اِک شخص کہ تھا وفا کا پیکر
وہ شخص بھی مائلِ جفاتھا

دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا

کچھ پھول کھلے ہوئے تھے گھر میں
کچھ یاد سے دل مہک رہاتھا

کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

اُس شام تھا دل بہت اکیلا
میں ہنستے ہنستے رو پڑا تھا

تھی بات بہت ذرا سی احمدؔ
اس دل کو نہ جانے کیا ہوا تھا

محمد احمدؔ
کس شعر کی داد دیں اور کس کی چھوڑیں؟
کمال کر دیا، احمد بھائی۔ روانی مبارک! :redheart::redheart::redheart:
 

محمداحمد

لائبریرین

محمداحمد

لائبریرین
ہمیں تاثرات دیکھنے ہیں جواس وقت چہرے پر نمایاں ہوئے تھے

شعراء تو ایسی ہی تصاویر کھینچتے ہیں کہ زیادہ تر خیالی ہوتی ہیں۔ :)

کچھ جذباتی قسم کی فلمیں تلاش کر کے دیکھیے، ملتی جلتی کوئی نہ کوئی شے مل جائے گی۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
شاعری اترنے کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ آپ ان کو تنگ نہ کریں۔ :p
یعنی کہ میری واپسی ٹائم پر ہی ہوئی ہے۔۔ احمد بھائی خبردار جو اب کچھ لکھا تو

شاعری ہم کچھ عرصے مزید ڈاؤن لوڈ نہیں کریں گے لیکن آپ کی واپسی یقیناً خوش آئند ہے۔ :) :) :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ وا !!! احمد بھائی کمال کے اشعار ہیں ۔ کیا خوب غزل ہے ! بے ساختہ اور بھرپور!!
دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا
بہت اچھا ہے! کچھ کہا بھی نہیں اور سارا قصہ کہہ بھی دیا ! کیا محاکات نگاری ہے!
صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا
سبحان اللہ ! واہ واہوا
دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا
بہت اعلیٰ !! کیا چھا کہا ہے!! سلامت رہیں احمد بھائی !
 
Top