عثمان غنی آسؔی
محفلین
دل کی دنیا کو تار تار نہ کر
وار نظروں کے بار بار نہ کر
آہی جا آشیانہء دل میں
یوں مجھے اب تو بے قرار نہ کر
ختم ہو جائے گی شبِ فرقت
اپنی آنکھوں کو اشکبار نہ کر
بے وفا اس جہان فانی پہ
یار میرے تو اعتبار نہ کر
گر گیا جو نگاہ میں اپنی
اس کے اٹھنے کا انتظار نہ کر
وہ کسی اور کا ہے دیوانہ
اس کو اپنوں میں تو شمار نہ کر
خود گریباں میں جھانک لے اپنے
عیب اوروں کے آشکار نہ کر
ظلمِ باطل کے سامنے ڈٹ جا
مفت میں خود کو پائیدار نہ کر
کیا خبر پھر کوئی ملے نہ ملے
خود کو اپنوں سے درکنار نہ کر
اپنے کردار سے مہک پیارے
فصل گل کا اب انتظار نہ کر
رازِ دل کو عیاں نہ کر آسؔی
اب مجھے اور شرمسار نہ کر
وار نظروں کے بار بار نہ کر
آہی جا آشیانہء دل میں
یوں مجھے اب تو بے قرار نہ کر
ختم ہو جائے گی شبِ فرقت
اپنی آنکھوں کو اشکبار نہ کر
بے وفا اس جہان فانی پہ
یار میرے تو اعتبار نہ کر
گر گیا جو نگاہ میں اپنی
اس کے اٹھنے کا انتظار نہ کر
وہ کسی اور کا ہے دیوانہ
اس کو اپنوں میں تو شمار نہ کر
خود گریباں میں جھانک لے اپنے
عیب اوروں کے آشکار نہ کر
ظلمِ باطل کے سامنے ڈٹ جا
مفت میں خود کو پائیدار نہ کر
کیا خبر پھر کوئی ملے نہ ملے
خود کو اپنوں سے درکنار نہ کر
اپنے کردار سے مہک پیارے
فصل گل کا اب انتظار نہ کر
رازِ دل کو عیاں نہ کر آسؔی
اب مجھے اور شرمسار نہ کر
آخری تدوین: