غزل ۔ از آسی انصاری

دل کی دنیا کو تار تار نہ کر
وار نظروں کے بار بار نہ کر

آہی جا آشیانہء دل میں
یوں مجھے اب تو بے قرار نہ کر

ختم ہو جائے گی شبِ فرقت
اپنی آنکھوں کو اشکبار نہ کر

بے وفا اس جہان فانی پہ
یار میرے تو اعتبار نہ کر

گر گیا جو نگاہ میں اپنی
اس کے اٹھنے کا انتظار نہ کر

وہ کسی اور کا ہے دیوانہ
اس کو اپنوں میں تو شمار نہ کر

خود گریباں میں جھانک لے اپنے
عیب اوروں کے آشکار نہ کر

ظلمِ باطل کے سامنے ڈٹ جا
مفت میں خود کو پائیدار نہ کر

کیا خبر پھر کوئی ملے نہ ملے
خود کو اپنوں سے درکنار نہ کر

اپنے کردار سے مہک پیارے
فصل گل کا اب انتظار نہ کر

رازِ دل کو عیاں نہ کر آسؔی
اب مجھے اور شرمسار نہ کر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
غزل یوں تو درست ہے لیکن کوئی بہت اچھا شعر بھی نہیں۔ صرف با وزن تک بندی کا نام ہی شاعری نہیں، اس کا خیال رکھیں۔

دل کی دنیا کو تار تار نہ کر
وار نظروں کے بار بار نہ کر
۔۔مطلع خوبصورت ہے۔

آہی جا آشیانہء دل میں
یوں مجھے اب تو بے قرار نہ کر
÷÷ عام شعر

ختم ہو جائے گی شبِ فرقت
اپنی آنکھوں کو اشکبار نہ کر
÷÷ اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔

بے وفا اس جہان فانی پہ
یار میرے تو اعتبار نہ کر
÷÷÷کوئ خاص بات نہیں۔ ’یار میرے‘ بھرتی کا ٹکڑا ہے۔

گر گیا جو نگاہ میں اپنی
اس کے اٹھنے کا انتظار نہ کر
÷÷اٹھ کر کیا کرے گا وہ ؟

وہ کسی اور کا ہے دیوانہ
اس کو اپنوں میں تو شمار نہ کر
÷÷عام سا شعر

خود گریباں میں جھانک لے اپنے
عیب اوروں کے آشکار نہ کر
÷÷÷ ایضاً

ظلمِ باطل کے سامنے ڈٹ جا
مفت میں خود کو پائیدار نہ کر
÷÷ پائیدار کرنا مطلب؟

کیا خبر پھر کوئی ملے نہ ملے
خود کو اپنوں سے درکنار نہ کر
÷÷یہاں در کنار کا غلط اسعمال ہے۔

اپنے کردار سے مہک پیارے
فصل گل کا اب انتظار نہ کر
÷÷ اچھا شعر ہے۔ مگر ’پیارے‘ بھرتی کا ہے۔

رازِ دل کو عیاں نہ کر آسؔی
اب مجھے اور شرمسار نہ کر

÷÷درست
 
غزل یوں تو درست ہے لیکن کوئی بہت اچھا شعر بھی نہیں۔ صرف با وزن تک بندی کا نام ہی شاعری نہیں، اس کا خیال رکھیں۔

دل کی دنیا کو تار تار نہ کر
وار نظروں کے بار بار نہ کر
۔۔مطلع خوبصورت ہے۔

آہی جا آشیانہء دل میں
یوں مجھے اب تو بے قرار نہ کر
÷÷ عام شعر

ختم ہو جائے گی شبِ فرقت
اپنی آنکھوں کو اشکبار نہ کر
÷÷ اس کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔

بے وفا اس جہان فانی پہ
یار میرے تو اعتبار نہ کر
÷÷÷کوئ خاص بات نہیں۔ ’یار میرے‘ بھرتی کا ٹکڑا ہے۔

گر گیا جو نگاہ میں اپنی
اس کے اٹھنے کا انتظار نہ کر
÷÷اٹھ کر کیا کرے گا وہ ؟

وہ کسی اور کا ہے دیوانہ
اس کو اپنوں میں تو شمار نہ کر
÷÷عام سا شعر

خود گریباں میں جھانک لے اپنے
عیب اوروں کے آشکار نہ کر
÷÷÷ ایضاً

ظلمِ باطل کے سامنے ڈٹ جا
مفت میں خود کو پائیدار نہ کر
÷÷ پائیدار کرنا مطلب؟

کیا خبر پھر کوئی ملے نہ ملے
خود کو اپنوں سے درکنار نہ کر
÷÷یہاں در کنار کا غلط اسعمال ہے۔

اپنے کردار سے مہک پیارے
فصل گل کا اب انتظار نہ کر
÷÷ اچھا شعر ہے۔ مگر ’پیارے‘ بھرتی کا ہے۔

رازِ دل کو عیاں نہ کر آسؔی
اب مجھے اور شرمسار نہ کر

÷÷درست
بہت بہت شکریہ اصلاح فرمانے کاسر ۔جزاک اللہ
 
Top