محمداحمد
لائبریرین
غزل
اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر
جہان والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا
جہان میں پھیل جائیں گے ہم بشر بشر کی پکار بن کر
بہار کی بدنصیب راتیں بُلا رہی ہیں چلے بھی آؤ
کسی ستارے کا رُوپ لے کر، کسی کے دل کا قرار بن کر
تلاشِ منزل کے مرحلوں میں یہ حادثہ اک عجیب دیکھا
فریب راہوں میں بیٹھ جاتا ہے صورتِ اعتبار بن کر
غرورِ مستی نے مار ڈالا وگرنہ ہم لوگ جی ہی لیتے
کسی کی آنکھوں کا نُور ہو کر، کسی کے دل کا قرار بن کر
دیارِ پیرِ مغاں میں آکر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغر
خُدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر
ساغر صدیقی