محمداحمد
لائبریرین
غزل
بات بھی تول رہا ہے پیارے
یا یونہی بول رہا ہے پیارے
شہر میں ڈھونڈ پڑی ہے تیری
تو یہاں ڈول رہا ہے پیارے
جب سے کنگال ہوا ہے یہ دل
سیپیاں رول رہا ہے پیارے
وہ کوئی اور ہو نہیں سکتا
مجھ میں جو بول رہا ہے پیارے
اپنے لہجے میں انا کا اپنی
زہر کیوں گھول رہا ہے پیارے
شل ہوئے پاؤں تو اب داروغہ
بیڑیاں کھول رہا ہے پیارے
دھوپ رخصت ہوئی دیواروں سے
سایا پر تول رہا ہے پیارے
دل بھی خالی کبھی اتنا نہ رہا
جتنا کشکول رہا ہے پیارے
جب بھی پہنی ہے قبائے دنیا
کچھ نہ کچھ جھول رہا ہے پیارے
حال تو صاحبِ احوال سے تھا
اب تو یہ خول رہا ہے پیارے
ہم رساؔ جُھول رہے ہیں جھولا
یا فلک ڈول رہا ہے پیارے
رساؔ چغتائی